گوادر بندر گاہ غیر فعال کیوں ہے؟
14 مئی 2024گوادر پورٹ کو پاکستان کی خوشحالی، استحکام اور امن کی ایک نوید سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت تعمیر کی جانے والی یہ بندر گاہ اپنے افتتاح کے آٹھ برس بعد بھی ویران ہی پڑی ہے۔
نومبر سن دو ہزار سولہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گوادر پورٹ کو پاکستان کی خوشحالی، استحکام اور امن کی ایک نوید سے تعبیر کیا تھا تاہم اس کے افتتاح کے کئی برس بیت جانے کے بعد بھی یہ بندرگاہ ویران ہی پڑی ہے۔ اس بندر گاہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کتے ہوئے تب نواز شریف نے کہا تھا، ''یہ دن ایک نئے دور کی شروعات ہے۔‘‘
اس بندر گاہ کی تعمیر کے دس سال بعد اس کا باضابطہ افتتاح کیا گیا۔ اسی برس پاک چائنہ راہدای منصوبے کا آغاز بھی کیا گیا تھا۔ چین کی اس سرمایہ کاری کو پاکستان میں ترقی کے ایک نئے دور کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ تاہم نتائج کچھ مختلف ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟
'سرمایہ کاروں کا خیال تھا کہ گوادر دبئی بن جائے گا‘
سی پیک منصوبے کا بنیادی مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو پاکستان کے راستے سمندر سے جوڑنا ہے۔ اس سے چین کے لیے تجارتی راستے چھوٹے اور آسان ہو جائیں گے اور ساتھ ہی پاکستان کو 2،000 کلومیٹر (1،240 میل) طویل راہداری کے ساتھ تجارت، بنیادی ڈھانچے اور صنعت میں اضافے سے مالی فائدہ ہو گا۔
کراچی کی پہلے سے قائم بندرگاہ کے علاوہ اس نئی راہداری کو عالمی شپنگ نیٹ ورک سے جوڑنے کے لیے گوادر کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ماہی گیری کا یہ چھوٹا سا شہر کراچی سے تقریبا 500 کلومیٹر دور ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے۔
گوادر: ایک اور حملہ، بلوچستان میں امن قائم کرنا مشکل کیوں؟
گوادر میں حفاظتی باڑ لگانے کے سرکاری منصوبے پر خدشات
گہرے سمندر کی یہ بندرگاہ سن 2007 میں مکمل ہوئی اور سن 2013 میں اسے ایک چینی آپریٹنگ کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔ منصوبہ ہے کہ اس بندرگاہ کو ایک نئے خصوصی اقتصادی زون میں ضم کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں بندرگاہی شہر گوادر ایک مصروف ترین مقام بن جائے گا۔
کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر عظیم خالد کے بقول کہ اس بندرگاہ میں صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر گہر نظر رکھنے والے خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ قدرتی گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو کراچی سے بھی بڑے بحری جہازوں کی میزبانی کر سکتی ہے۔ یہ تیل کی عالمی تجارت کے چوراہے پر واقع ہے اور یہ چین کے علاقائی مفادات کو مستحکم بنانے میں بھی مدد دے گی۔‘‘ خالد نے مزید کہا، ’’سرمایہ کاروں نے سوچا تھا کہ گوادر اگلا دبئی بن جائے گا۔‘‘
چین دنیا بھر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے
چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ نیٹ ورک کے تحت دنیا بھر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں حکومتیں نئی اور توسیع شدہ بندرگاہوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے اپنی معیشتوں کو فروغ دینے کی کوشش میں ہیں۔ اس مقصد کے لیے چینی بینک مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ چینی کمپنیاں اکثر بندرگاہوں کی تعمیر اور انہیں چلاتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے کم از کم 38 بندرگاہوں کے بارے میں معلومات جمع کی ہیں، جو سن 2000 کے بعد سے چینی سرمایہ کاری سے تعمیر کی گئی ہیں۔ مزید 43 بندرگاہوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے یا تعمیر کی جا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق 78 فعال بندر گاہوں پر چینی اسٹیک ہولڈرز کی گرفت مضبوط ہے۔
گوادر کی کارکردگی دیگر نئی بندرگاہوں سے بدتر
شپ ٹریکنگ اور میری ٹائم تجزیات فراہم کرنے والے میرین ٹریفک کے مطابق لیکی بندرگاہ میں سن 2023 میں 26 بحری جہاز لنگر انداز ہوئے، جو اس کے آپریشن کا پہلا سال تھا۔ یہ بڑی بندرگاہوں کے مقابلے میں ایک معمولی تعداد ہے۔ لیکن گوادر بندرگاہ نے سن 2007 میں فعال ہونے کے باوجود اب تک کے بہترین سال میں صرف 22 جہازوں کو خدمات فراہم کی ہیں۔ یہ باقاعدگی سے طے شدہ گہرے سمندر کی شپنگ لائنوں کو راغب کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گوادر پورٹ ابھی تک پاکستان یا چینی آپریٹنگ کمپنیوں کے لیے آمدنی پیدا کرنے میں ناکام ہی رہی ہے۔ خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ گوادر پورٹ بالآخر کراچی کی بندرگاہوں کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن سرمایہ کاری کی کمی اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے، نو مزدوروں سمیت گیارہ ہلاک
پاکستان: گوادر میں فوج پر حملے میں دو ہلاک اور متعدد زخمی
سن 2015 میں اس بندر گاہ میں توسیع کی خاطر 1.6 بلین ڈالر مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے یہ بندرگاہ پر بہت کم سرمایہ کاری کی گئی۔ گوادر سے سامان کی نقل و حمل کے لیے سڑکوں اور ریلوے سمیت بنیادی ڈھانچے کی بھی کمی ہے۔
عوامی سطح پر چائنا پاکستان انویسٹمنٹ کارپوریشن جیسے سرمایہ کار اب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گوادر بندرگاہ خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز بن رہی ہے لیکن ویران بندرگاہ کے نظارے ان دعوؤں کے برخلاف حقائق بیان کرتے ہیں۔
خالد کا کہنا ہے کہ راز کی بات یہ ہے کہ دراصل پاکستان اور چین دونوں اس منصوبے سے مایوس ہو چکے ہیں،''نوکریوں کے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ صنعتی وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ پاکستانیوں کے لیے کاروباری مواقع پورے نہیں کیے گئے۔ انہوں نے (چین نے) خصوصی 9 اقتصادی زونز کا وعدہ کیا تھا۔ آج تک کوئی بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔‘‘
سی پیک منصوبہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے متاثر
گوادر میں ہونے والی ترقی چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کے باقی حصوں کی صورت حال کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ جرمن تھنک ٹینک میکاٹر انسٹی ٹیوٹ فار چائنہ اسٹڈیز کے سابق تجزیہ نگار اور صحافی جیکب مارڈیل کے بقول، ''سی پیک کو اپنے آغاز سے ہی مسائل کا سامنا رہا ہے۔‘‘
ان میں سے کچھ مسائل افغاسنتان سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے جڑے ہیں جبکہ کچھ علیحدگی پسند ملیشیا کے ہیں۔ اس علاقے میں چینی شہریوں کو نشانہ بھی بنایا گیا جبکہ دہشت گردانہ حملے بھی کیے گئے۔ ملکی فوج اس غریب ترین پاکستانی علاقے میں فعال ملیشیا گروپوں کے خلاف کارروائی بھی کر رہی ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں شدید معاشی بحران کا سامنا بھی ہے۔ سن 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد اگرچہ نئی جمہوری حکومت بن چکی ہے لیکن جنوب ایشائی کا یہ ملک اب بھی سیاسی طور پر مستحکم ہونے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
مارڈیل نے کہا، ''چونکہ حال ہی میں پاکستان میں سیاسی اور سلامتی کی صورتحال خراب ہوئی ہے، جس کی وجہ سے سی پیک بھی مزید متاثر ہوا۔‘‘
غیر مستحکم سرمایہ کاری ایک اور بڑا مسئلہ
پاکستان جیسے ممالک چینی قرض دہندگان کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔ خالد کے مطابق پاکستانی حکومت اربوں روپے کے ایسے قرضے چکانے کی کوشش میں ہے، جو اس نے سی پیک کے نام پر غیر ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کی مد میں لیے تھے۔
مذاکرات کامیاب، گوادر میں طویل ترین احتجاجی دھرنا ختم
پاکستان: چینی شہریوں کی گاڑی پر ایک اور خود کش حملہ
اس سے قبل بھی اسی طرح کے معاملات پر تنقید کی جا چکی ہے کہ چین قرضوں کے جال میں پھنسنے والی سفارتکاری کر رہا ہے، جس سے شراکت دار ممالک کو سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے غیر مستحکم مقدار میں قرضوں میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔
مزید برآں نو تعمیر شدہ منصوبوں سے ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ بھی واپس چین کو جاتا ہے۔
خالد نے سی پیک کی سرمایہ کاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''چین کو ہر چیز کا سب سے بڑا حصہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر گوادر بندرگاہ سے ہونے والی آمدنی کا 90 فیصد چینی آپریٹنگ کمپنی اور دس فیصد پاکستانی حکومت کو ملتا ہے جبکہ مقامی صوبائی حکومت کو کچھ نہیں ملتا۔‘‘
مارڈیل نے البتہ کہا کہ حالات جو کچھ بھی ہیں لیکن تمام مسائل کے باوجود سی پیک اور گوادر بندرگاہ کو فعال رکھا جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ چین تسلیم کرے کہ یہ منصوبہ ایک تباہی ثابت ہوا ہے، ''سی پیک سے دستبرداری اور پاکستان کو ترک کرنا اب کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ پاکستان ایک اہم اتحادی ہے۔‘‘
مارڈیل کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ چین پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری سے کترائے گا لیکن پھر بھی سی پیک کو جاری رکھنے کے لیے علامتی کوششیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود گوادر پورٹ میں ترقی ہونے کا قوی امکان ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کے حالات بہتر ہونا ناگزیر ہیں۔
کیرہ شاخٹ (ع ب، ا ا)