1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتا نامو بے جیل کے سابق قیدی کا مقدمہ

18 نومبر 2010

امریکی وفاقی عدالت نے گوانتا نامو بے کے سابقہ قیدی احمد غیلانی کو دہشت گردی کے تمام تر الزامات سے بری کر دیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اس پہلے مقدمے کے دوران اس کے خلاف صرف ایک جرم ثابت ہوا ہے،جس پر اسے 20 سال کی قید ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/QCDE
اس مقدمہ کو ایک تجرباتی مقدمہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہےتصویر: AP

تنزانیہ سے تعلق رکھنے والا احمد خلفان غیلانی، کیوبا میں واقع امریکی جیل خانے کا وہ پہلا سابقہ قیدی ہے، جس کے خلاف امریکی سول عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس پرالزام تھا کہ وہ سن 1998ء میں دو مختلف امریکی سفارت خانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ اس پر کل 286 الزامات عائد کئے گئے تھے، جس میں سے صرف ایک ہی ثابت ہو سکا۔

بدھ کو نیویارک کی وفاقی عدالت کی جیوری نے پانچ دنوں کی مشاورت کے بعد یہ حیرت انگیز فیصلہ سنایا۔ جیوری کے مطابق 36 سالہ غیلانی پر صرف یہ الزام ثابت ہوا کہ وہ امریکی جائیداد کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ اسے پچیس جنوری کو سزا سنائی جائے گی۔ اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ اس جرم کے بدلے میں اسے کم ازکم بیس سال کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔

Bild des ersten Guantanamo-Häftlings vor einem US - Zivilgericht Ahmed Ghailani
36 سالہ احمد غیلانی کو پچیس جنوری کو سزا سنائی جائے گیتصویر: AP

غیلانی کے خلاف سول عدالت میں جاری اس مقدمے کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بد نام زمانہ گوانتا نامو بے جیل کے اس سابقہ قیدی کے سول مقدمے کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کیونکہ امریکہ حکام اور عوام دونوں ہی امریکی صدر باراک اوباما کے گوانتا نامو جیل کے بند کرنے کے فیصلے کو اسی مقدمے کے تناظر میں جانچیں گے۔ کئی مبصرین کے بقول یہ ایک تجرباتی مقدمہ ہے، جو بعد ازاں واضح کرے گا کہ اوباما کا گوانتا نامو بے کی جیل بند کرنے کا فیصلہ کس حد تک درست ہے۔

گزشتہ چار ہفتوں سے جاری اس مقدمے کے دوران وکیل استغاثہ کا مؤقف تھا کہ غیلانی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا ساتھی ہے اوراس نے کینیا اور تنزانیہ میں واقع امریکی سفارت خانوں پر دہشت گردانہ حملوں میں بھر پور معاونت کی تھی۔ سن 1998 ء میں بارود سے بھرے ٹرکوں کی مدد سے کئے گئے ان حملوں کے نتیجے میں 224 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

اس مقدمے سے متعلق جیوری کے فیصلے کے بعد امریکی محکمہ ء انصاف کےترجمان میتھو ملر نے فیصلے کا خیر مقدم کیا،' ہم جیوری کے فیصلے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔' دوسری طرف انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن Daphne Eviatar نے کہا ہے کہ اس مقدمے کی کارروائی سے واضح ہو گیا ہے کہ ان قیدیوں کے خلاف مقدموں کی سماعت سول عدالتوں میں ہو سکتی ہے ، اس لئے گوانتا نامو بے جیل خانے کو بند کر دینا چاہئے۔ ہیومن رائٹس فرسٹ نامی تنظیم سے وابستہ اس خاتون کارکن نے کہا کہ اب انہیں انتظار ہے کہ امریکی حکومت گوانتا نامو جیل خانے کے مزید قیدیوں کو سول عدالتوں میں لانے کا فیصلہ کب کرے گی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں