گوانتانامو بے جیل کے کم عمر قیدی کو لاکھوں ڈالر ہرجانہ ادا
7 جولائی 2017کینیڈا کے مقامی ذرائع کے مطابق گوانتانامو بے میں رکھے جانے والے کینیڈین شہری عمر خضر کو حکومت نے 8.1 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کر دیا ہے۔کینیڈا کی لبرل حکومت نے رواں ہفتے کے اوائل میں عمر خضر سے معذرت بھی کی تھی کہ وہ اُس کے حقوق کے مناسب تحفظ میں ناکام رہی تھی۔
ہرجانے کی ادائیگی سے قبل کینیڈین سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے دائر اپیل میں کہا تھا کہ حکومت عمر خضر کے حقوق کی پاسداری میں ناکام رہی تھی۔ خضر کے وکلاء کے مطابق گوانتانامو کی جیل میں اُسے شدید ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
خضر کو سن 2002 میں افغانستان سے اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ صرف پندرہ برس کا تھا۔ افغانستان میں اُسے اُس کا والد لے کر گیا تھا، جو القاعدہ کا فعال رکن تھا۔ خضر کا والد پاکستانی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے سن 2003 میں مارا گیا تھا۔
خضر ابھی بم بنانے کی تربیت حاصل کر ہی رہا تھا کہ امریکی فوج کے طبی شعبے سے منسلک ایک فوجی اہلکار کے ساتھ مسلح جھڑپ کے الزام میں اُسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اُسے امریکی فوج نے گوانتانامو کی خصوصی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور اُس جیل کے اندر ہی قائم فوجی عدالت نے اسے سزا سنائی تھی۔ وہ گوانتانامو بے کا کم عمرتین قیدی قرار دیا گیا تھا۔
ایک دہائی تک گوانتانامو بے کی جیل میں قید رہنے کے بعد خضر کو سن 2012 میں کینیڈا منتقل کیا گیا اور اُسے سن 2015 میں رہائی دی گئی۔ عمر خضر نے اپنی حکومت پر تقریباً 16 ملین ڈالر کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا تھا۔ اس ہرجانے کی عدالتی کارروائی کے دوران ہی حکومت اور خضر کے درمیان عدالت سے باہر ایک معاہدہ طے پا گیا۔ اس عدالتی کارروائی کی گونج سارے کینیڈا میں محسوس کی گئی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ عمر خضر نے حاصل ہونے والی اس انتہائی کثیر رقم کو فوری طور پر اپنے اکاؤنٹ میں منتقل بھی کر دیا ہے۔