گوانتانامو فوجی عدالت کا مستقبل
4 مئی 2009يہ اطلاعات بھی ہيں کہ اوباما انتظاميہ نے جرمن حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ گوانتانامو جيل سے رہائی پانے والے قيديوں کو جرمنی ميں آباد ہونے کا موقع دے۔ اس اقدام کے پر جرمنی ميں شديد بحث شروع ہوگئ ہے کہ کيا يہ صحيح ہوگا۔
بتايا جاتا ہے کہ نئی امريکی حکومت بھی گوانتانامو کے قيديوں پر مقدمات کے سلسلے ميں متنازعہ فوجی عدالتوں سے گريز نہيں کرنا چاہتی۔ صدر اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ہی کہا تھا:’’گوانتانمو کو ايک سال کے اندر بند کرديا جائے گا۔‘‘
امريکی صدر نے يہ بھی کہا تھا کہ فوجی عدالت ميں مقدموں کو بيس مئی تک مؤخر کرديا جائے گا۔ ليکن ايسا معلوم ہوتا ہے کہ اوباما اور ان کے مشير گوانتانامو کے فوجی کميشن اور القاعدہ کے مبينہ دہشتگردوں کے خلاف اس کی کارروائی کو اب ايک مختلف نظر سے ديکھ رہے ہيں۔
صدر اوباما کے سب سے قريبی مشير David Axelrodt نے کہا:’’ہم اس وقت رائے قائم کرنے کے عمل سے گذر رہے ہيں اور اس سلسلے ميں ہماری پيش رفت اچھی ہے۔‘‘
اخبار نيويارک ٹائمز نے ايک رپورٹ ميں ايک حکومتی اہلکار کا نام لئے بغيراس کے حوالے سےتحرير کيا ہے کہ حکومتی ماہرين قانون صدر اوباما کے عہدہ سنبھالنے کے بعد گوانتانامو کے ٹريبیونل پر جس قدر زيادہ توجہ مرکوز کررہے ہيں، اسی قدر زيادہ اس کے بارے ميں ان کی رائے کم تنقيدی ہوتی جارہی ہے۔
وزير دفاع رابرٹ گيٹس نے پچھلی جمعرات کو امريکی کانگريس کی کميٹی کے سامنے کہا کہ گوانتانامو فوجی عدالتيں اب بھی ايک ممکنہ راستہ ہيں۔
ايک معروف ريڈيو اسٹيشن، ڈيموکريسی ناؤ کے مطابق گيٹس نے يہ بھی کہا کہ گوانتانمو کے بند ہونے کے بعد ايک سو تک قيديوں کو مقدمہ چلائے بغير غير معينہ مدت تک کے لئےامريکہ ميں قيد رکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوانتانامو کے بہت سے قيدی اتنے خطرناک ہيں کہ انہيں رہا نہيں کيا جاسکتا، تاہم کافی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو سزا بھی نہيں دی جاسکتی۔
ليکن صدر اوباما کے مشيروں کومبینہ طور پر واضح ثبوت . ہونے کے باوجود گوانتانامو کے قيديوں کو باقاعدہ امريکی عدالتوں ميں پيش کرنے کے سلسلے ميں شديد مشکلات کا سامنا ہے۔
بہت سے مبینہ ثبوت ایسے اقبالی بيانات ہیں، جو خفيہ ادارے سی۔آئی۔اے نے تشدد کے ذريعہ حاصل کئے ہيں اور امريکی عدالتيں انہيں تسليم نہيں کريں گی۔ اس کے علاوہ سی۔آئی۔اے کے ايجنٹ اپنی شناخت کے ڈر سے باقاعدہ امريکی عدالتوں کے سامنے پيش ہونے پر راضی نہيں ہوں گے۔
پريس کی اطلاعات کے مطابق امريکی حکومت نے جرمنی سے گوانتانمو کے دس قيديوں کو قبول کرنے کی درخواست کی ہے، جن کا تعلق چينی ايغور اقليت سے ہے اور جو امريکہ کے مطابق خطرناک نہيں ہيں۔
جرمنی ميں اس بارے ميں شديد بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کيا انہيں يہاں لايا جائے يا نہيں۔ حکومتی ترجمان نے کہا کہ حکومت اس بارے ميں اطمينان سے غور کرنا چاہتی ہے۔