گوانتانامو کے قیدیوں کی مجوزہ یمن واپسی کی مخالفت
30 دسمبر 2009ان سینیٹرز نے کہا کہ ایسا تب تک نہ کیا جائے جب تک صنعاء حکومت یہ ضمانت نہ دے دے کہ ان مبینہ دہشت گردوں کی عسکریت پسندانہ کارروائیوں میں دوبارہ شمولیت عملی طور پر نا ممکن بنا دی جائے گی۔
واشنگٹن میں سینیٹ کے ان تینوں ارکان نے، جن میں ری پبلکن جان میک کین اور لنڈسے گراہیم کے علاوہ آزاد رکن جوزف لیبرمن بھی شامل ہیں، منگل کی شام صدر اوباما کے نام اپنے ایک خط میں کہا کہ گوانتانامو کے قیدیوں کی یمن منتقلی کا منصوبہ اپنی موجودہ حالت میں انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام ہو گا جس پر کافی غور و فکر نہیں کیا گیا۔
امریکی سینیٹ کے ان بہت اہم ارکان نے کہا کہ یمن میں سیکیورٹی کی موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے، یا اس بات کو کہ ماضی میں بھی یمنی حکومت بڑے مجرم سمجھے جانے والے قیدیوں کو جیلوں میں بند رکھنے میں ناکام رہی ہے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کیوبا کے جزیرے پر قائم بین الاقوامی سطح پر بہت متنازعہ امریکی حراستی کیمپ سے مشتبہ دہشت گردوں کی یمن منتقلی اچھا فیصلہ نہیں ہو گا۔
صدر باراک اوباما نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد اعلان کیا تھا کہ گوانتانامو کی امریکی جیل سال 2010 کے اوائل میں بند کر دی جائے گی۔ تاہم کئی قانونی اور عملی مشکلات کی وجہ سے اوباما انتظامیہ اب یہ بھی تسلیم کر چکی ہے کہ گوانتانامو جیل کی مجوزہ وقت پر بندش ممکن نہیں ہو گی۔
اس امریکی جیل میں ابھی بھی قریب دو سو مشتبہ دہشت گرد زیر حراست ہیں، جن میں سے نصف کے قریب یمن کے شہری ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا ارادہ ہے کہ ان یمنی قیدیوں میں سے چھ کو صنعاء حکومت کے حوالے کر دیا جائے۔
تاہم ان تینوں سینیٹرز نے اپنے خط میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ آج کے یمن میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ افغانستان اور پاکستان کے بعد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ منظم ہے۔ ایسے میں گوانتانامو کے کسی بھی یمنی قیدی کی اس کے ملک واپسی امریکہ کے لئے کسی مثبت اور بہتر تبدیلی کا باعث بننے کے بجائے سلامتی کے حوالے سے نقصان کا باعث زیادہ بنے گی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: ندیم گِل