1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوجرہ سانحے کا ذمہ دار کون؟

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور، ادارت: شامل شمس4 اگست 2009

اگرچہ پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرہ میں عیسائیوں کے خلاف پر تشدد واقعات کے بعد اب صورتحال معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے لوگوں کو اس سوال کے درست جواب کی تلاش ہے کہ اس افسوس ناک سانحے میں کون لوگ ملوث ہیں۔

https://p.dw.com/p/J3XN
کیا وجہ شدّت پسندی ہے؟تصویر: AP

گوجرہ میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی اعلیٰ سطح تحقیقات جاری ہیں۔ اس سلسلے میں قائم کئے جانے والے عدالتی کمیشن کے سر براہ جسٹس اقبال حمید الرحمن نے حقائق کی تلاش میں عوام سے مدد کی اپیل کی ہے۔ عدالتی کمیشن کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ جو افراد بھی اس سلسلے میں اپنے بیانات قلم بند کروانا چاہتے ہیں وہ 6 اگست تک اپنے نام ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عرفان احمد سعید کے پاس جمع کروا دیں۔ یاد رہے اس عدالتی کمیشن کو اپنی تحقیات دو ہفتوں میں مکمل کر کے واقعے کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Nawaz Sharif betet im Data Darbar-Schrein in Lahore
وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف (بائیں جانب) بھی حادثے کے چوتھے روز گوجرہ پہنچےتصویر: AP

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے منگل کی شام گوجرہ کی صورتحال کے حوالے سے ایک حقائق نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گوجرہ میں عیسائیوں پر ہونے والے حملے کسی فوری ردِ عمل کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ عیسائی آبادی پر منصوبہ بندی کے تحت کئے جانے والے ان حملوں سے وہاں کی انتظامیہ مکمل طور پر آگاہ تھی۔ کمیشن نے حقائق کی تلاش میں گوجرہ کا دورہ کرنے والے کمیشن کی خصوصی ٹیم کے ارکان کی عینی شاہدوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری پر حملہ کرنے والوں میں سپا ہ صحابہ سمیت کئی دیگر کالعدم مذہبی تنظیموں کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کے کمیشن نے عیسائی آبادی پر حملے کی شدید مذمت کی ہے تا ہم اس کے ساتھ ساتھ کمیشن نے مسیحی برادری کے متاثرہ لوگوں کو پناہ دینے والے مسلمان گھرانوں کی کاوشوں کو بھی سراہا ہے۔

بعض لوگوں کی طرف سے گوجرہ کے واقعات میں غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم سرکاری حکام ابھی تک ان خدشات کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

Anschlag auf Cricket Team in Pakistan
پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے سانحے کے چوتھے روز گوجرہ کا دورہ کیاتصویر: AP

گوجرہ کے سانحے کے چوتھے روز متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق گوجرہ کے سانحے میں کون لوگ ملوث ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس سانحے کے ذمہ دار وہ ہی لوگ ہیں جن کو سوات سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اب ان لوگوں کو پنجاب سے بھی بھگا دیا جائے گا۔

اگرچہ پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرہ میں عیسائیوں کے خلاف پر تشدد واقعات کے بعد اب صورتحال معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے لوگوں کو اس سوال کے درست جواب کی تلاش ہے کہ اس افسوس ناک سانحے میں کون لوگ ملوث ہیں۔

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے متاثرہ لوگوں کی مدد کیلئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر امدادی سر گرمیاں جاری ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرف سے اس سانحے میں متاثر ہونے والے افراد کیلئے امدادی رقوم کا اعلان کیا جا چکا ہے اور متاثرہ گھروں کی تعمیر فوری طور پر شروع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے متعلقہ اداروں کو اس سانحے میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ 24 گھنٹے میں تیار کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

منگل کے روز گوجرہ کا دورہ کرنے والوں میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی شامل تھے۔ مقامی چرچ میں مسیحی متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے یقین دلایا کہ عدالتی تحقیقات کے بعد ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے گا۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ کوئی مسیحی قرآن ِ پاک کی توہین کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ ان کے مطابق فرض کر لیجئے خدا نخواستہ اگر ایسی بات ہوتی بھی تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور جا کر بے گناہ لوگوں پر ظلم و تشدد کر ے اور ان کے گھروں کو بر باد کر دے۔

گوجرہ شہر میں موجود وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے کہا کہ ایف آئی آر میں ملزموں کو گرفتار کر کے ان کا ٹرائل کیا جائے گا تا کہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔ ان کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اس واقع میں ملوث افراد کو قرار واقع سزا ملنی چاہےے تا کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ گوجرہ میں متاثرین کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے امدادی کیمپ بھی لگایا جا رہا ہے۔

سانحہ گوجرہ کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گوجرہ میں مشتعل مظاہرین کی طرف سے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کی وجہ سے عیسائی آبادیوں پر حملے کئے گئے تھے جن میں کم از کم سات افراد مارے گئے تھے اور ایک درجن سے زائد لوگ ذخمی ہو گئے تھے۔ سانح گوجرہ کے حوالے سے شہر کی انتظایہ کے کردار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ان مذہبی جماعتوں کی طرف سے جن پر گوجرہ کے سانحے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے ان کی طرف سے گوجرہ کی صورتحال کے حوالے سے ان کا موقف سامنے نہیں آیا ہے۔