گوشت چھوڑیں، سبزیاں کھائیں: جرمنی میں نئی بحث
16 ستمبر 2010جرمنی میں گوشت سے پرہیز کی تشہیر کے لئے پہلے بھی بہت کوششیں ہو چکی ہیں لیکن جتنا اثر امریکی مصنف جوناتھن زعفرن فور کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’ایٹنگ اینیملز‘ کا دیکھنے میں آیا ہے، پہلے کسی بھی ذریعے سے دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ امریکی ادیب اب تک اپنے کامیاب ناولوں کی وجہ سے شہرت کے حامل تھے تاہم اب اُنہوں نے اِس موضوع پر قلم اٹھایا ہے کہ کیسے جانوروں کو بڑے بڑے فارموں میں اذیت ناک حالت میں رکھا جاتا ہے۔
اس کتاب نے امریکہ اور مغربی دُنیا کے دیگر ملکوں کی طرح جرمنی میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اب شاید اِسی کتاب کا اثر ہو کہ جرمن معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو گوشت سے اعلانیہ پرہیز کرتے ہیں اور صرف اور صرف سبزیاں کھاتے ہیں۔
سبزی خوروں کی مرکزی جرمن تنظیم کے ناظم الامور سیباتیان سوئش کہتے ہیں:’’عوام کے رجحانات میں تبدیلی آئی ہے۔ اب سبزیاں کھانا جدید اور فیشن کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ہالی وُڈ کے کئی مشہور ستارے بھی سبزی خور ہو چکے ہیں۔ لوگوں کی سوچ بدلی ہے۔ لوگ اِس طرح سے اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں، اُن میں ہمدردی کا جذبہ ہے اور وہ پائیدار بنیادوں پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔‘‘
امریکی مصنف جوناتھن زعفرن فور نے گہری تحقیق کے بعد اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ گوشت کا بے تحاشا استعمال اور اِس گوشت کی پیداوار کا انتظام کرنے والا فیکٹری سسٹم انسانی صحت کے لئے مختلف طرح کے مسائل ساتھ لا رہا ہے اور ساتھ ساتھ زمینی درجہء حرارت میں اضافے اور کئی دیگر طرح کی ماحولیاتی تباہ کاریوں کا باعث بھی بن رہا ہے۔
سبزی خوروں کی جرمن تنظیم کے نمائندے سوئش کہتے ہیں:’’میرے خیال میں یہ نکتہ بھی اہم کردارادا کر رہا ہے کہ لوگ مکمل شعور کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ بہت سے شعبوں میں جتنا کم ہو، اُتنا ہی اچھا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ سبزیوں کی لذت کا پہلو بھی سبزی خوروں کے ہاں زیادہ سے زیادہ اہم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نے اب سبزی خوروں کا ایک ٹریڈ فیئر منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، وَیجی ورلڈ۔ اِس میں ہم اِن دونوں رجحانات کو یکجا کرنا چاہتے ہیں یعنی ایک طرف ماحول کے ساتھ ایسا برتاؤ کہ وسائل پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور دوسری جانب اِس طریقے سے سبزیاں کھائی جائیں کہ لذت کا پہلو بھی نظر انداز نہ ہونے پائے۔‘‘
امریکی مصنف فور کی تحقیق کے مطابق ماحول میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی جس مقدار کا ذمہ دار انسان ہے، اُس کے اٹھارہ تا اکیاون فیصد کے ذمہ دار جانوروں کے بڑے بڑے فارم ہیں۔ جرمنی میں عام لوگوں سے گوشت ترک کرنے کے بارے میں پوچھا گیا توایک مرد کا کہنا تھا:’’ہاں یہ اچھا تو ہے لیکن مجھے خود گوشت اتنا زیادہ اچھا لگتا ہے کہ مَیں اِسے ترک نہیں کر سکتا، ہاں مَیں اِس بات کا تصور ضرور کر سکتا ہوں کہ گوشت کا استعمال ذرا کم کر دوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مَیں جب کینٹین میں جاتا ہوں تو وہاں عموماً ہمیشہ ہی گوشت ہوتا ہے اور سبزی دیکھنے میں ہمیشہ اتنی اچھی بھی نہیں لگتی۔‘‘
ایک خاتون نے اِسی سوال کا جواب کچھ یوں دیا:’’مَیں ویسے تو اِس بات کی حامی ہوں، ایک عرصے تک مَیں نے اِس پر عمل بھی کیا ہے۔ اب اگر مَیں کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کے حوالے سے سنوں تو پھر تو انسان کو واقعی گوشت سے جان بوجھ کر پرہیز کرنے پر ضرور غور کرنا چاہئے۔‘‘
ایک اور شخص نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا:’’میرے خیال میں میرے ہاں ایک مخصوص رجحان نظر آ رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ عموی رجحان بھی یہی ہو کہ اب معیار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور گوشت کی بے تحاشا مقدار پر نہیں۔ اب عام گوشت کی بجائے بائیو گوشت زیادہ کھایا جاتا ہے۔‘‘
33 سالہ مصنف جوناتھن زعفرن فور کا کہنا ہے کہ ویسے تو وہ گزشتہ کئی برسوں سے صرف اور صرف سبزی خور ہو جانے کا سوچ رہے تھے لیکن گوشت ترک کرنے کے سلسلے میں اُن کی سوچ میں بنیادی تبدیلی کا باعث اُن کا پالتو کتا جارج بنا ہے۔
رپورٹ:گنٹر بِرکن سٹوک / امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ