گوگل سے ’ٹیک ڈاؤن‘ کے مطالبات میں سیاسی آراء سرفہرست
18 جون 2012اس سلسلے میں گوگل کی طرف سے اتوار سترہ جون کو ٹرانسپیرنسی رپورٹ کہلانے والی جو دستاویز جاری کر دی گئی وہ ہر سال دو مرتبہ جاری کی جاتی ہے۔ خبر ایجنسی اے ایف پی نے امریکی شہر سان فرانسسکو سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ گوگل کی طرف سے آن لائن انفارمیشن کی دستیابی اور خاص طرح کی معلومات کے خلاف شکایتوں کے بارے میں جاری کی گئی یہ اپنی نوعیت کی پانچویں رپورٹ ہے۔
آن لائن انفارمیشن اور ان سے متعلق شفافیت کے بارے میں گوگل کی اس تازہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کمپنی کو جو آن لائن معلومات آف لائن کر دینے یا ’ٹیک ڈاؤن‘ کی درخواستیں کی جاتی ہیں ان کی تعداد مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے زیادہ تر مطالبے عدالتی احکامات کی صورت میں بھی کیے جاتے ہیں اور مختلف اداروں یا حکومتوں کی طرف سے درخواستوں کی صورت میں بھی۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاص طرح کی آن لائن انفارمیشن انٹرنیٹ پرعام صارفین کی پہنچ سے دور رہے۔
گوگل کی طرف سے ان ٹرانسپیرنسی رپورٹوں میں کسی حد تک یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ مختلف ملکوں میں حکومتوں کی طرف سے جن معلومات کے ’ٹیک ڈاؤن‘ کی درخواستیں کی جاتی ہیں وہ کس طرح کی انفارمیشن ہوتی ہے۔ یہ معلومات یا تو گوگل سرچ انجن، اس کے متعدد ذیلی شعبوں یا پھر گوگل کی ملکیت کئی مشہور کمپنیوں کی ویب سائٹس پر صارفین کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔ ان معلومات کے ’ٹیک داؤن‘ کی درخواست اس لیے کی جاتی ہے کہ جن کے بارے میں یہ انفارمیشن ہوتی ہے وہ افراد یا ادارے نہیں چاہتے کہ صارفین کو ان تک رسائی حاصل ہو۔ گوگل کی ملکیت جن اداروں کی ویب سائٹس پر اعتراض کیا جاتا ہے، ان میں ایک اہم نام ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یو ٹیوب کا بھی ہے۔
گوگل کی سینئر پالیسی تجزیہ کار Dorothy Chou نے تازہ ترین ٹرانسپیرنسی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے کو ہمیشہ کی طرح اب بھی ایسی بہت زیادہ ٹیک ڈاؤن درخواستیں کی جاتی ہیں کہ یہ کمپنی زیادہ تر سیاسی رائے یا تبصروں کے زمرے میں آنے والی انفارمیشن آف لائن کر دے۔ ڈورتھی چُو نے بتایا کہ حکومتوں کی طرف سے ایسی ٹیک ڈاؤن درخواستوں میں اضافے کا رجحان اس لیے پریشان کن ہے کہ یوں آزادی رائے اورآزادی اظہار خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
ڈورتھی چُو کے مطابق ایسی ٹیک ڈاؤن درخواستیں ان مغربی ریاستوں کی حکومتوں کی طرف سے بھی کی جاتی ہیں جن کے بارے میں عام لوگ یہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ بھی اپنے ہاں سنسرشپ لگاتی ہیں۔
گوگل کی سینئر پالیسی تجزیہ کار چُو کے بقول پچھلے سال کی دوسری ششماہی میں امریکی حکومت نے اس کمپنی سے جو ٹیک ڈاؤن درخواستیں کیں وہ 2011 کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں دگنی تھیں۔ اس کے علاوہ یوکرائن، اردن اور پولینڈ جیسے ملکوں کی طرف سے بھی پہلی مرتبہ ایسی کئی درخواستیں کی گئیں۔
اس ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق گوگل نے گزشتہ برس کے آخری چھ مہینوں کے دوران مختلف عدالتوں کے احکامات کے بعد مجموعی طور پر 457 میں سے 65 فیصد واقعات میں مبینہ طور پر متنازعہ یا قابل اعتراض مواد آف لائن کر دیا گیا۔ اس دوران کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گوگل سے 560 سے زائد ایسی دیگر درخواستیں بھی کی گئیں۔ ان میں سے بھی 47 فیصد واقعات میں اس کمپنی کو متنازعہ معلومات، آڈیو یا ویڈیو فائلز کو آف لائن کرنا پڑا۔
ij / shs ( AFP)