1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گُرو رام رحیم زیادتی کیس، پُر تشدد واقعات میں متعدد ہلاکتيں

محمد علی خان، نیوز ایجنسی
25 اگست 2017

مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی کو ايک مقامی عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد بھارت کے شہر ہریانہ میں جاری احتجاجی مظاہروں میں اب تک چودہ افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2irHW
Indien Panchkula - Ausschreitungen Unterstützer des religiösen Führers Gurmeet Ram Rahim Singh
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق شمالی بھارت کے علاقے پنچکولا  کی ایک عدالت کی جانب سے سکھ مذہب کے ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے مشہور مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی کو مجرم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد ریاست پنجاب اور ہریانہ میں سکیورٹی فورسز اور ڈیرہ سچا سودا کے حامیوں کے درمیان ہو نے والے پر تشدد واقعات میں اب تک کم سے کم چودہ افراد ہلاک اور قریب اسّی زخمی ہو گئے ہیں۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے کئی گاڑیوں اور ٹرين کی دو خالی بوگیوں کو نذرِ آتش بھی کر ديا گیا۔

مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی پر الزام تھا کے انہوں نے سن 2002 میں اپنے ڈیرے پر دو خاتون پیروکاروں سے جنسی زیادتی کی تھی۔ جنسی زیادتی کے مقدمے میں مجرم قرار دیے جانے کے بعد ہی آج  ہریانہ میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے۔ پنچکولہ کی مرکزی تفتیشی عدالت کے جج اس مقدمے میں حتمی سزا کا اعلان پیر28 اگست کو کریں گے۔

مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی
مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Prakash

نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کے عوام امن و امان  قائم  رکھیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے زور ديا کہ کسی صورت میں قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے، بصورت ديگر مظاہرین کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اعلیٰ حکام کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اس صورت حال پر بریفنگ دے دی گئی ہے۔ ہریانہ پولیس کے سربراہ مہارشی نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ عوام بہرحال اشتعال میں ہے لیکن بہت جلد تمام  صورت حال پر قابو پا لیا جائے گا۔     

عدالتی فیصلہ آنے کے بعد فوجی اہلکاروں نے گرمیت رام رحیم کو حفاظتی تحویل میں لے لیا اور انہیں ايک فوجی چھاؤنی منتقل کر دیا گیا ہے۔

مقامی انتظامیہ نے کئی علاقوں میں حفاظتی طور پر کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ چنڈی گڑھ اور ملحقہ علاقوں میں پولیس اور نيم فوجی دستوں کے پندرہ ہزار کے قریب اہلکار تعینات ہیں جو کسی بھی ناخشگوار صورت حال پر قابو پانے کے ليے ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ ریاست ہریانہ کے شہر پنچکولا  اور اس کے نواحی علاقوں کو پہلے ہی خاردار باڑ لگا کر سیل کر دیا گيا ہے۔