1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گٹن برگ کا طرزِ عمل نامناسب: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

25 فروری 2011

جرمن وزیر دفاع گٹن برگ نے اپنے PhD کے مقالے میں غلطیوں کے اعتراف کے باوجود اپنے عہدے سے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی بیٹینا مارکس نے اپنے تبصرے میں گٹن برگ کے اِس طرزِ عمل کو نامناسب قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/10Oj4
جرمن وزیر دفاع گٹن برگتصویر: AP

بیٹینا مارکس لکھتی ہیں:

’’جرمنی کی سیاسی روایات کے لیے یہ ایک شرمناک بات ہے کہ کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ ابھی تک اپنے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ ایک ایسا وزیر، جس کا جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو، جو دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا ہو اور جس نے دوسرے مصنفین کے کام کو اپنا کام ظاہر کرتے ہوئے کوئی علمی اعزاز حاصل کیا ہو، وہ وزیر کے عہدے پر متمکن نہیں رہ سکتا۔ یہ بات ایک جمہوری آئینی ریاست کے شایانِ شان نہیں ہے۔ یہ امر باعثِ شرم ہے کہ وفاقی جرمن پارلیمان کو ایک پورا دن ایک ایسے وزیر کی طرف سے سرقے کے موضوع پر صرف کرنا پڑا، جو تکبر کے ساتھ اور اخبار ’بِلڈ‘ کی پشت پناہی سے کسی بھی طرح کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ اور یہ بات بھی شرمناک ہے کہ اِس وزیر کو جرمن چانسلر اور حکومتی جماعتوں کے پارلیمانی اراکین کی بھی تائید و حمایت حاصل ہے۔

Grüne Fraktionschef Jürgen Trittin
23 فروری کو وفاقی جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کی حزب کے قائد یرگن ٹرٹین وزیر دفاع گٹن برگ کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

یہ بات طے ہے کہ کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ نے جھوٹ بولا ہے۔ اپنی تمام تر معلومات کی روشنی میں اور اپنے ضمیر کو حاضر ناظر جان کر اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنہوں نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ سات برسوں کی عرق ریزی اور محنت کے نتیجے میں خود مرتب کیا تھا۔ اُنہوں نے ایسے تمام تر الزامات کو دور از کار قرار دیتے ہوئے رَد کر دیا تھا کہ اُنہوں نے اپنے مقالے میں دوسرے مصنفین کی تحریریں نقل کی ہیں۔ اُنہوں نے محتاط انداز میں پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کہیں تب جا کر کیا، جب اُن کے دھوکہ دہی کے مرتکب ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ گیا تھا اور جب ان کے مقالے اور ان کے کوائف میں جعل سازی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تفصیلات منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اپنا ڈاکٹر کا اعزاز ترک کر دیں گے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک شخص کے طور پر قانون کے بارے میں اُن کی سمجھ کتنی مضحکہ خیز ہے؟ بھلا کوئی اپنا علمی اعزاز بھی اتنی آسانی سے واپَس کر سکتا ہے؟ اور کوئی ایسا کرتے ہوئے الزامات کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کا راستہ تو بالکل بھی نہیں روک سکتا کیونکہ یہی تو گٹن برگ چاہتے تھے۔ ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے بقول اُن کے ’تکلیف دہ دستبرداری‘ کے ذریعے وہ اپنے خلاف اعتراضات کی بنیاد ہی ختم کر دینا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ خود کو ایک ایسے گنہگار کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے، جس نے اپنی اصلاح کر لی ہو۔

Superteaser NO FLASH Deutschland Bundestag zu Plagiats-Affäre Karl-Theodor zu Guttenberg
وزیر دفاع گٹن برگ پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa

تاہم اُنہیں اِس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ متعلقہ یونیورسٹی نے سرقہ کیے ہوئے اقتباسات کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد خود ہی اُنہیں اِس اعزاز سے محروم کر دیا۔ اب اِس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا کہ گٹن برگ سرقے کے مرتکب ہوئے، اُنہوں نے جھوٹ بولا اور اُنہوں نے دھوکہ دہی سے بھی کام لیا۔ ایسے میں اُن کی شخصیت کتنی بھی مسحور کُن کیوں نہ ہو اور وہ سیاسی اہلیت کے اعتبار سے بھی کتنے ہی باکمال کیوں نہ ہوں، وہ اب مزید اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔

بات صرف جھوٹ اور فریب دہی ہی کی نہیں ہے بلکہ قانون کا احترام نہ کرنے اور اعتبار مجروح کرنے کی بھی ہے۔ جرمنی کے علمی شعبے کے ساتھ ساتھ اُن سب لوگوں کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہے، جو واقعی برسوں کی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کرتے ہیں، جن کے خاندان کروڑ پتی نہیں ہوتے اور جنہیں معاشی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ معاملہ اُن تمام نوجوان محققین کے وقار کا بھی ہے، جو اقتصادی اصلاحات کا خمیازہ بھگتنے والی یونیورسٹیوں میں تقریباً انسانی وقار کے منافی حالات میں کتنی ہی قربانیاں دے کر اپنا کیریئر شروع کر پاتے ہیں۔

افسوس ہے کہ بات یہاں تک پہنچی اور ایک ایسے نوجوان سیاستدان کی ساکھ کو نقصان پہنچا، جس میں واقعی صلاحیتیں بھی تھیں۔ لیکن اگر کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ اپنے عہدے پر بدستور کام کرتے رہے تو جرمنی میں سیاسی روایات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔‘‘

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں