گھر بساؤ یا خود کو جلاؤ: کم سن افغان لڑکیوں کا مشکل فیصلہ
9 مارچ 2012بچوں جیسے خدوخال والی عاطفہ کے جلے ہوئے جسم پر صرف بینڈچ ہی نظر آ رہی تھی اور اللہ اللہ کی چیخیں ہسپتال کے اس وارڈ میں گونج رہی تھیں، جس میں سرجنز اُس کے جھلسے ہوئے جسم پر جراحی کے ذریعے جلد چڑھانے کی کوششیں کر رہے تھے۔
نیلی، گہری آنکھوں سے غصے کے شعلے برس رہے تھے جنہیں بجھانے کے لیے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا۔ 16 سالہ افغان لڑکی کے لیے اپنی روداد سنانے کا عمل ایک کٹھن جدو جہد تھی۔ آخر وہ کیا بتائے، کیسے کہے کہ کن حالات نے اُسے خود کو نذر آتش کرنے پر مجبور کیا۔
عاطفہ قالین بافت ہے اور اس کے 9 بھائی بہن ہیں۔ جس وقت اُس کی شادی ہوئی تھی اُس کی عمر 14 سال تھی۔ اُس کا شوہر ایک میکینک ہے۔ عاطفہ کا کہنا ہے کہ اُس کی ساس اور شوہر کے بھائی بہن اُس کے گھریلو کام پر ہر وقت تنقید کرتے ہیں اور اُس کے شوہر کو بہکاتے ہیں اور جب بھی اُس کی ماں اُس سے ملنے آتی ہے تو وہ لوگ ناراض ہوتے ہیں اور اس کے شوہر کو بھکا کر بیوی کی پٹائی کرواتے ہیں۔ عاطفہ نے بتایا کہ اس بارے میں اُس نے مقامی انتظامیہ کو بتایا تاہم اُسے یہی کہا گیا کہ وہ خوامخواہ کے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عاطفہ کے بقول اُس کا شوہر اُس سے نفرت کرتا ہے اور دوسری شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
حالات سے تنگ آ کر عاطفہ نے ایک روز اپنے جسم پر پٹرول جھڑکا اور گھر سے باہر جاکر خود کو آگ لگا دی۔ اُس کا دوتہائی جسم آگ کے شعلوں میں جھلس رہا تھا کہ اُس کے بھائی نے اُسے دیکھ لیا اور اُس کے پاس آکر شعلوں کو بجھانے کیے لیے اُس کے جسم کو اپنے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ پھر عاطفہ کے پڑوسیوں نے اُسے ہسپتال پہنچایا۔ عاطفہ کہتی ہے’میں بس خود کو ختم کردینا چاہتی تھی۔ یہ میرا اصل مقصد تھا، اب میں کیا کروں ، اب تو میں کسی قابل نہیں رہی۔ میں طلاق لینا چاہتی ہوں، بہتر یہی ہے کہ سب کچھ ختم ہو جائے‘۔
عاطفہ جیسی درجنوں افغان لڑکیوں کوکم سنی میں زبردستی شادی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ایک ایسے گھرانے میں جو بے سکونی کا شکار ہو۔ حالات سے تنگ آکر افغانستان کے ثقیف مگر قدامت پسند مغربی شہر ہرات کی متعدد لڑکیاں خود کو جلانے جیسے بہیمانہ عمل کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔ ہرات میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی سریّا پخزادہ کے بقول کم عمری کی شادی لڑکیوں کے لیے شدید نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ بہت سی لڑکیاں چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے اس نفسیاتی تناؤ کا مقابلہ نہیں کر پاتیں۔ ’’ تمام لڑکیاں خود سوزی کا فیصلہ نہیں کرتیں۔ یہ گھر والوں کو بتانےکا بھی ایک طریقہ ہےکہ مزید ایسا نہ کیا جائے‘‘۔
افغانستان میں خاندانی مسائل کے حل کے لیے پولیس، قبائلی اکابرین، ملا، اور کوٹ سب موجود ہے تاہم اس پسماندہ اور ناخواندہ معاشرے میں کسی خاتون کا گھریلو حالات کے بارے میں شکایت کرنا ٹابو ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ / کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق