1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھریلو تشدد کے واقعات میں گھر کے افراد کا کردار

19 جولائی 2024

پاکستان میں گھریلو تشدد کے زیادہ تر واقعات کے پیچھے عام طور پر 'جہیز‘ اور 'اولاد نرینہ کی خواہش‘ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ واویلا سسرال والے مچاتے ہیں۔ 'پدر شاہانہ‘ سوچ اب خواتین میں بھی سرائیت کر چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4iVAp
Sanober Nazir
تصویر: privat

پستول کے فائر کی آواز نے سب کو چونکا دیا تھا۔ لڑکی کی آڑھی ترچھی لاش باورچی خانے میں پڑی تھی۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور خون کی دھار نالی کی جانب تھی۔ ماں، باپ نے فوراً بیٹے کو بھاگنے کا مشورہ دیا اور بہو کی لاش اٹھا کر اس کے کمرے میں لے آئے۔  لڑکے کی بہن اور ماں نے باورچی خانے میں پھیلا خون پانی سے دھو دھلا کر صاف کیا۔ اپنے اوسان بحال کیے اور پولیس آنے پر یہی بیان دیا کہ بہو نے خودکشی کی ہے۔ مرنے والی ایک نسبتاً غریب گھر کی لڑکی تھی۔

مقدمہ چلتا رہا اور بالآخر ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں شوہر ہی مجرم ثابت ہوا۔ ملزم نے اقبال جرم کرتے ہوئے اپنے گھر والوں بالخصوص ماں اور بہن کے منفی رویے کی نشان دہی کی اور کہا، ''اگر میں ماں باپ اور بہن کی باتوں پر کان نہ دھرتا تو قتل کی نوبت نہ آتی۔‘‘

پچھلے چند دنوں سے ملتان میں ایک کیس کی بازگشت آج کل سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ لڑکی ثانیہ زہرہ ہے، جسے ایک ہفتے قبل اپنے بیڈ روم میں پنکھے سے ٹنگے ہوئے مردہ حالت میں پایا گیا۔ بیس برس کی ثانیہ دو بیٹوں کی ماں تھی۔ تفتیش، الزامات اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

یہاں یہ سوال اہم نہیں کہ ثانیہ نے خودکشی کی یا اسے قتل کیا گیا۔ وہ حاملہ تھی یا نہیں۔ یا اس پر مرنے سے قبل تشدد ہوا یا نہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایک بیس سالہ نوجوان، خوب صورت لڑکی، جس کے دو بچے بھی ہوں، آخر اس نہج پر پہنچی کیسے کہ خود اس نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی؟

گھریلو تنازعات میں جسمانی تشدد کی جانچ پڑتال تو ہو سکتی ہے لیکن ذہنی اور روحانی تشدد کو ناپنے کا آلہ آج بھی پاکستانی سماج میں ناپید ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مرد کے علاوہ  'ساس‘ جو عورت ہونے کے باوجود اپنی بہو پر وہی مظالم ڈھاتی ہے، جس سے وہ خود گزر چکی ہوتی ہے۔

پدر شاہی نظام کی شروعات مردوں نے خواتین کو اپنے تابع کرنے سے کی۔ یہ تابعداری صرف جسمانی نہیں تھی بلکہ ذہنی طور پر بھی عورت کو مفلوج کیا گیا۔ چونکہ ملکیت کا تصور زور پکڑ رہا تھا۔ زمین اور مویشیوں کی طرح عورت بھی مرد کی ملکیت بن کر رہ گئی۔ یہ پدرشاہی نظام کا چکر جو چلا تو پھر رک نہ سکا اور آج ہمارے جیسے معاشروں میں اب یہ نظام سے زیادہ ایک سوچ بن گئی ہے، جو صرف مردوں تک محدود نہیں بلکہ عورتوں میں بھی سرائیت کر چکی ہے اور یہی دراصل پدر شاہی نظام یا مردوں کی جیت ہے۔

''عورت ہی عورت کی دشمن ہے‘‘ پدر شاہی نظام کی جب بھی مخالفت کی جاتی ہے تو مرد حضرات اس کلیشے کو اکثر دہراتے ہیں اور اپنی ظالمانہ رویوں سے چشم پوشی کرنے کی پوری سعی کرتے ہیں۔

لیکن بات جب مشترکہ خاندانی نظام میں گھریلو تشدد کے کیسسز کی آتی ہے تو کیا صرف ایک ہی شخص کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟  کیا  قتل کی معاونت کرنے میں لڑکے کے گھر والوں اور سسرالی خواتین یعنی ساس یا نند کی شمولیت ہوتی ہے؟

مشترکہ خاندانی نظام میں ہمارے پاس  گھریلو تشدد کے جتنے بھی کیسز آتے ہیں ان میں بیٹے کی پشت پناہی میں گھر والوں اور ماں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے لیکن ہمارا قانون تو ابھی تک اصل مجرم کو سزا دینے میں اکثر ناکام نظر آتا ہے، چہ جائیکہ ان ملزمان کو کٹہرے میں لائے جو ایسے جرائم پر ایک فریق کو اکساتے ہیں۔

لیکن ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں عورت اس گھناؤنے کھیل میں مرد کا ساتھ دیتی ہے؟ بیٹی کا پہلا حق اس کی پیدائش پر ہی اس سے چھین لیا جاتا ہے، جب اس کے پیدا ہونے پر خوشی کے بجائے مُردنی چھا جاتی ہے۔ بچپن سے وہ اپنے والدین کو بھائی کی زیادہ آؤ بھگت کرتے اور اسے ایک بوجھ سمجھ کر کم عمری میں ہی بیاہنے کی فکر میں مبتلا دیکھتی ہے۔ پرائی امانت کہہ کر تعلیم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور خود مختار ہونے کی صلاحیت کو بیدار ہونے سے پہلے ہی گہری نیند سلا دیا جاتا ہے۔  وہ اپنے ہی گھر کو اپنے لیے 'میکہ‘ سمجھتی ہے اور 'سسرال ہی اصل گھر‘۔

شادی کے بعد جینا مرنا سسرال سے وابستہ کر دینا ایک لڑکی کو کتنا غیر محفوظ بنا دیتا ہے اس کا احساس لڑکی کے والدین کو تب ہوتا ہے جب وہ سسرال والوں کے تشدد کے نتیجے میں یا تو ذہنی مریض بن جاتی یا پھر جان سے جاتی ہے یا خودکشی  کر لیتی ہے۔

اندازہ لگائیں جو عورت بچپن سے ایسے تعصبات سے گزر کر جب جوان بیٹے کی ماں کے درجہ پر فائز ہوتی ہے اور جب دوسری عورت بہو کے روپ میں اس کے ماتحت آتی ہے تو مردوں کے بنائے ہوئے اصولوں کا بدلہ وہ اُس عورت سے ہی لینے کی کوشش کرتی ہے جو کہ اس کی نسبت کمزور ہوتی ہے۔

گوکہ زمانہ اب تیزی سے بدل رہا ہے۔ لڑکیاں تعلیم حاصل کر کے بااختیار بھی ہو رہی ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اب بھی تشدد اور قتل کےایسے واقعات ہمارے سماج کی جان نہیں چھوڑ رہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی دو ہزار بیس کی رپورٹ کے مطابق نوے فیصد خواتین کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر گھریلو تشدد کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

والدین نا صرف بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے دیں۔ اُن کی سماجی اور نفسیاتی تربیت بھی کریں تاکہ لڑکیاں 'دنیا کیا کہے گی‘ سے آگے جہاں اور بھی ہیں کے مصداق ایک مضبوط انسان بنیں۔ شادی ایک فریضہ ہے لیکن اسے بوجھ سمجھ کر سر سے اتارنے میں ہرگز جلد بازی نہ کریں۔ شادی کے بعد بھی بیٹیوں کے لیے گھر کے دروازے ہر وقت کھلے رکھیں۔ بچیوں کو خود مختار، تعلیم یافتہ اور اچھی تربیت اعلی گھروں میں رشتوں کے لیے نہیں، بلکہ ان کی اپنی شخصیت کو نکھارنے اور پراعتماد بنانے کے لیے دیں۔ کیونکہ اسی میں عورتوں کی جیت اور پدر شاہی نظام کی پسپائی ہے۔

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

 

Sanober Nazir
صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید