1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیارہ ستمبر 2001 سے آج تک

10 ستمبر 2009

امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001 کو ہونے والےحملوں کے بعد سے اب تک کے اہم واقعات پر ایک نظر۔

https://p.dw.com/p/JZOD
اغواء کئے گئے طیاروں کے ورلڈٹریڈ ٹاور سے ٹکرانے کا منظرتصویر: AP

20 ستمبر سن2001 ء: بش کا طالبان کو جنگ کا الٹی ميٹم

امريکہ ميں يہ سمجھا جاتا ہے کہ 11ستمبر کو نيويارک اور واشنگٹن ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں اسامہ بن لادن کا ہاتھ تھا۔ صدر بش نے امريکی کانگريس ميں تقرير کرتے ہوئے افغانستان کی طالبان حکومت کو ايک الٹی ميٹم ديا تھا، جس ميں انہوں نے دہشت گرد قائد بن لادن کو امريکہ کے حوالے کرنے اور دہشت گرد تنظيم القاعدہ کے تربيتی کيمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کيا تھا۔

Flugzeugträger mit Kampfflieger
امریکہ نے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز فضائی حملوں سے کیا تھاتصویر: AP

7اکتوبر سن2001 : افغانستان ميں جنگ

جب طالبان نے صرف يہ پيشکش کی کہ وہ بن لادن کو ايک اسلامی عدالت کے سامنے پيش کرنے کے لئے تيار ہيں تو امريکی اور برطانوی فوجوں نے افغانستان ميں اہداف پر بمباری شروع کردی۔

’’ميرے حکم پر امريکی فضائيہ نے افغانستان ميں القاعدہ کے تربيتی کيمپوں اور طالبان کے فوجی ٹھکانوں پر حملوں کا آغاز کرديا ہے۔‘‘

زمينی جنگ زيادہ تر افغان شمالی اتحاد کی ساتھی فوج نے لڑی۔ 12نومبر کو طالبان دارالحکومت کابل سے فرار ہوگئے۔ يہ پوری طرح سے معلوم نہيں کہ اب تک جنگ ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے مطابق صرف سن 2008 ء ہی میں دوہزار ايک سو افراد ہلاک ہوئے۔

25 اکتوبر سن 2001 ء: امريکی کانگريس نے حب ا لوطنی کا قانون منظور کرليا

US-Lager Guantánamo
گوانتانامو کا حراستی مرکزتصویر: dpa

25 اکتوبر سن 2001 ء کو امريکی کانگريس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے ميں حب ا لوطنی کے قانون کی منظوری دی۔ اس کے تحت عبوری مدت کے لئے شہری حقوق کو محدود کردیا گیا۔ دوسری باتوں کے علاوہ سرکاری کتب خانوں کو يہ بتانے کا پابند بنا دیا گیا کہ کون سی کتابيں مستعار لی گئيں اور انٹرنيٹ پر لوگوں نے کن ويب سائٹس کو ديکھا۔ امريکہ آنے والوں کے لئے ايسے پاسپورٹ لازم کردئے گئے، جن کو جعلی طور پر تيار نہ کيا جاسکتا ہو۔ ان افراد کو، جن کے پاس امريکی شہريت نہيں تھی،اب دہشت گردی کے شبے ميں غير معينہ مدت تک کے لئے حراست ميں رکھ جا سکتا تھا۔ امريکہ کے ڈيموکريٹ سينيٹر پيٹرک ليحی نے اس کے تين سال بعد کہا کہ يہ ايک گناہ تھا۔

’’ہميں امريکيوں کودوسرے امريکيوں کی جاسوسی کرنے کے سلسلے کو ختم کرنا چاہئے۔امريکہ جيسے آزاد اور جمہوری ملک ميں محکمہ جاتی تقسيم اختيارات کو معطل کر دیا گیا ہے۔‘‘

Osama bin Laden
دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایک فائل تصویرتصویر: AP

11 جنوری سن 2002 : امريکہ نے گوانتانامو جيل قائم کرلی

امريکہ نے صدر بش کی ہدايات پر کيوبا ميں گوانتانامو کے فوجی اڈے پر ايک قيد خانہ تعمير کر ليا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں قيد کئے جانے والوں کو پہلے پنجروں کی طرح کے قيد خانوں اور پھر کڑے حفاظتی انتظامات کے تحت سخت حالات ميں قيد کرديا گيا۔ سن2002 ء ميں افغانستان پر امريکی حملے کے بعد طالبان اور القاعدہ کی صفوں سے تعلق رکھنے کے شبے ميں مجموعی طور پر چاليس سے زائد ملکوں کے ايک ہزار سے زيادہ افراد کو گوانتانامو ميں قيد کرليا گيا، جہاں انہيں ايک عام جنگی قيدی کے سے حقوق دینے سے انکار کيا گيا۔

’’قيديوں سے جنگی قيديوں کا سا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ دشمن جنگجو ہيں۔ تاہم ہم ان کے ساتھ اچھا انسانی برتاؤ کريں گے۔‘‘

ليکن گوانتانمو جيل ميں زيادتيوں اور اذيت رسانی کی خبروں کا تانتا بندھا رہا۔ وکلاء نے فوجی عدالتوں کی شکايت کی، جن کی کارروائی ميں آئينی اور قانونی طريقوں سے کام نہيں ليا جاتا تھا۔ اسامہ بن لادن کے، ساڑھے پانچ سال کی سزا پانے والے ڈرائيور کے وکيل بين وزنر کہتے ہيں: ’’يہ دنيا کی واحد عدالتی کارروائی ہے، جس ميں ملزم فردجرم عائد کئے جانے سے قبل ہی عمر قيد کی سزا کاٹ رہا ہے اور آئندہ بھی يہ سزا بھگتتا رہے گا۔‘‘

Flash-Galerie Deutschland 60 Jahre Kapitel 6 1999 – 2009 11. September
ورلڈ ٹریڈ ٹاورز ان حملوں میں مکمل طور پر تباہ ہو گئےتصویر: AP

یکم جولائی سن 2002 ء: بش کا نظريہ

يکم جنوری سن 2002 ء کو صدر بش نے ويسٹ پوائنٹ کی فوجی اکيڈمی ميں اپنا يہ متنازعہ نظريہ پيش کیا کہ امريکہ غير ممالک ميں آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کے لئے پيشگی تدارک کے طور پر حملے کرسکتا ہے۔ شرط يہ ہے کہ وہ امريکہ اور اس کے اتحاديوں کے لئے خطرے کا باعث ہوں۔ اس نظريے کے مزيد اجزاء دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے مشرق وسطی ميں جمہوريت کو فروغ دينا اور امريکہ کے فوجی مفادات کا يک طرفہ ادراک تھے۔

20 مارچ سن2003 ء : عراق پر حملہ

11ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے امريکہ ميں بش حکومت نے عراق کو امريکہ کے لئے خطرہ قرار دينا شروع کرديا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ عراق اپنے کيميا ئی ہتھيار دہشت گردوں کے حوالے کرسکتا تھا اور اگر عراق اپنے کيميائی اسلحے کو ضائع نہيں کرتا تو اقوام متحدہ کو اس پر حملے کی اجازت دينا چاہئے۔ بش حکومت نے اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1441کو عالمی قانون کے تحت عراق پر اپنے 20 مارچ کے حملے کا جواز بنايا اور اس کی حمايت پر آمادہ ممالک نے اس ميں اس کا ساتھ ديا۔ یکم مئی ہی کواس حملے کے نتيجے ميں صدام حکومت کا خاتمہ ہوگيا۔ تاہم عراق مسلسل زیادہ شورش اور افراتفری کی لپيٹ ميں آتا گيا۔

Flash-Galerie Bilder zum 11. September
صدر بش ورلڈ ٹریڈ ٹاور کے دورے پر ایک فائر فائٹر کے ہمراہتصویر: AP

’’عراق ميں ہمارا مشن اعلٰی اور ضروری ہے۔ کوئی بھی مجرمانہ اقدام ہمارے عزم يا اس کی قسمت کو تبديل نہيں کرسکتا۔ ہم اپنا کام مکمل ہی کريں گے۔‘‘

صدر بش نے يہ الفاظ سن 2006 ء کے آخر ميں کہے تھے، تاہم سن 2009 ء ہی ميں امريکہ نے عراق سے اپنی فوج واپس بلانا شروع کردی ہے۔

10 اگست سن 2009 ء : افغانستان ميں جنگ کی منفی صورتحال

افغانستان ميں امريکہ کے نئے کمانڈر اسٹينلے ميک کرسٹل کہتے ہيں کہ جنگ ميں طالبان کا پلہ بھاری ہوچکا ہے اور ISAF کی فوج اس آٹھ سالہ جنگ کو جيت نہیں سکتی۔

تحریر: Daniel Sceschkewitz / شہاب احمد صدیقی

ادارت : عاطف توقیر