1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالی وُڈ کے افغان اداکار کو وطن کی فکر

عاطف توقیر11 اگست 2014

ہالی وُڈ کی فلم ’آئرن مین‘ جیسی بلاک بسٹر فلم فہیم فضلی کو ان کے فلمی کیریئر میں عروج پر لے گئی، تاہم اس بڑی کامیابی کے باوجود سن 2009ء میں انہوں نے اپنے ملک لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ یہ داستان ایک تازہ کتاب کا موضوع ہے۔

https://p.dw.com/p/1CsUy
تصویر: picture alliance/AP Photo

سن 1980ء میں افغانستان میں سوویت مداخلت کے وقت ملک سے فرار ہو کر امریکا چلے جانے والے فضلی ہالی وُڈ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔ تاہم اس کامیابی کے باوجود وہ جب بھی اپنے امریکی پاسپورٹ کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ ’کیا میں نے صرف یہی کچھ حاصل کیا؟‘

فہیم فضلی گزشتہ ہفتے امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں اپنے بارے میں شائع ہونے والی ایک کتاب ’فہیم کہتے ہیں: ایک بہادر اداکار کی کہانی، افغانستان سے امریکا اور پھر واپسی‘ پر دستخطوں کے لیے منعقد کردہ ایک تقریب میں شریک تھے۔

سن 2009ء میں انہوں نے امریکا چھوڑ کر امریکی فوج کے ساتھ ہلمند صوبے میں بطور مترجم کام کا فیصلہ کیا۔ امریکی میرینز نے والدہ کی تلاش میں فضلی کی مدد کی، جنہیں وہ سن 1980ء میں افغان سے فرار ہوتے ہوئے اپنے دیگر اہل خانہ کے ہمراہ وہیں چھوڑ آئے تھے۔

فہیم فضلی کی اہلیہ، جو ان کی ایجنٹ اور مینیجر بھی ہیں، ہالی وُڈ میں خاصی مستحکم پوزیشن کے حامل اس اداکار کے وطن واپس لوٹ جانے کے فیصلے پر متحیر تھیں، ان کا کہنا تھا کہ ’تم کر کیا رہے ہو؟‘

اس لیے بھی کہ فضلی صرف پردہء سیمیں ہی پر نظر نہیں آتے تھے بلکہ ان کی ایک مشاورتی ٹیم بھی تھی، جو ہالی وُڈ میں مائیک نکولس اور ٹوم ہینکس جیسی مضبوط فلمی شخصیات کو ’چارلی وِلسنز وار‘ کی فلم بندی کے حوالے سے مشورے فراہم کر چکی تھی۔

Szenenbild aus dem Film Iron Man 2 Flash-Galerie
فہیم فضلی نے آئرن مین جیسی مشہور فلم میں بھی کام کیاتصویر: AP

اس فلم میں ہینکس امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک رکن کانگریس کے روپ میں نظر آئے، جو سی آئی اے کے ایک ایجنٹ کے ساتھ مل کر سوویت قبضے کے خلاف افغانوں کی مدد کرتے ہیں۔

افغانستان دنیا کے سب سے خطرناک علاقوں میں سے ایک رہا ہے، تاہم فضلی کا کہنا ہے، ’میرا ماننا یہ ہے، کہ مجھے اپنے ملک کے کچھ قرض چکانا ہیں۔‘

سن 2009ء میں امریکی فوج کے لیے مترجم کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے فضلی ہلمند کی انہی گلیوں میں دوبارہ پہنچے، جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ مترجم کی حیثیت میں انہوں نے امریکی میرینز اور افغان قبائل کے درمیان ایک پُل کا سا کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’اگر وہ ایک دوسرے کو نہ سمجھ پاتے، تو ایک دوسرے کو ہلاک کر دیتے۔‘

انہوں نے اسی دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا، ’اسی لیے فوج کے لیے کچھ مقامات پر کام کرنا نہایت آسان تھا، جہاں انہیں اسلحے کی بجائے اپنے پاس ٹافی، پینسل یا کاپی رکھنا ہوتی تھی اور افغان بچوں کے لیے یہ سستے سے تحفے فوجیوں کو کسی بڑی لڑائی سے بچا لیتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی مواقع پر افغان قبائلی رہنما جب میرینز کے بارے میں کوئی مزاحیہ بات کرتے تھے، تو وہ اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اس طرح ترجمہ کرتا تھا کہ اس میں دل آزاری کا عنصر نہ رہے اور بات مذاق تک ہی محدود رہے۔

48 سالہ فضلی یوں تو خاصے ہنس مکھ ہیں، تاہم چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہی، ان کی سیاہ انکھیں اور تنی ہوئی بھونیں، انہیں ’مشرق وسطیٰ کے کسی دہشت گرد‘ کے روپ میں ڈھال دیتی ہیں۔ انہوں نے آسکر انعام یافتہ فلم ’آرگو‘ اور حال ہی میں مکمل ہونے والی فلم ’امیرکن سنائپر‘ میں ایسے ہی کردار نبھائے۔

اس حوالے سے فضلی کا کہنا ہے، ’میں ان تمام تنگ نظر افراد کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں، جنہوں نے مذہب کو یرغمال بنا رکھا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’ایسا کرنے کا مقصد لوگوں کہ یہ بتانا ہے کہ کوئی دہشت گرد کس قدر برا ہو سکتا ہے۔ ان کا اصل رنگ دکھا کر مجھے انتہائی فرحت ملتی ہے۔‘