ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں اضافہ، فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟
11 مارچ 2019اسٹاک ہولم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ سِپری کے مطابق سن دو ہزار نو سے سن دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں دنیا بھر میں سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک ہتھیاروں کی تجارت میں تقریبا آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ امریکا کے بعد اسلحہ برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بالترتیب روس، فرانس، جرمنی اور چین ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ سِپری کی اس رپورٹ کے مطابق حقائق کچھ یوں ہیں:
- سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار اٹھارہ تک جتنے بھی ہتھیار فروخت ہوئے، ان میں سے چھتیس فیصد امریکا نے برآمد کیے۔ یوں سن دو ہزار نو سے لے کر سن دو ہزار تیرہ تک کے مقابلے میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں چھ فیصد اضافہ ہوا۔
- امریکا نے مجموعی طور پر ایک سو سے کچھ کم ممالک کو ہتھیار فروخت کیے جبکہ مجموعی طور پر ان ہتھیاروں کا نصف حصہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کیا گیا۔
- دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک روس ہے، جس نے تقریباﹰ اٹھائیس ممالک کو اسلحہ بیچا۔ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے ہر پانچویں ڈیلیوری روس نے کی۔
- سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار اٹھارہ تک دنیا میں ہتھیاروں کے پانچ بڑے برآمد کنندہ ممالک امریکا، روس، فرانس، جرمنی اور چین رہے۔
- بین الاقوامی سطح پر جرمن ہتھیاروں کی فروخت میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا۔ بیرونی ممالک نے خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی خرید میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
- امریکا کے ہر چار ہتھیاروں میں سے ایک سعودی عرب نے خریدا۔ اس طرح سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار اٹھارہ تک دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار سعودی عرب نے ہی درآمد کیے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اس عرصے میں ماضی کے چار برسوں کے مقابلے میں دو گنا ہتھیار خریدے۔امریکی میزائل نصب ہوئے تو یورپ اور امریکا روس کے نشانے پر، پوٹن
سپری کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک بڑے جنگی طیاروں، ٹینکوں اور میزائلوں جیسے بھاری ہتھیار زیادہ فروخت کیے گئے جبکہ دستی بموں اور رائفلوں جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی آئی۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی وجہ سے خطے کے امیر ممالک میں اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں بھی مزید اضافہ ہوا۔
ا ا / م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)