ہر ایک سو تیرہ میں سے ایک فرد بے گھر یا مہاجر
20 جون 2016مہاجرین کے عالمی دن کے موقع پر سالانہ عالمی رجحانات کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہر 113 افراد میں سے ایک فرد یا تو پناہ کی تلاش میں ہے یا داخلی طور پر بے گھر ہے اور یا پھر ہجرت کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ ہر منٹ پر 24 لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں درج ہے کہ سابقہ تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے سن 2015 میں 65.3 ملین افراد بے گھر ہوئے جبکہ سن 2014 میں یہ تعداد 59.5 ملین تھی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس تعداد میں حیرت انگیز طور پر ہونے والا اضافہ شدید انسانی مصائب کی نمائندگی کرتا ہے۔ مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فیلیپو گرانڈی کا کہنا تھا، ’’ مزید لوگ جنگوں اور مظالم کے سبب بے گھر ہو رہے ہیں اور یہ بذات خود پریشانی کی بات ہے لیکن ان عوامل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو مہاجرین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ‘‘
مہاجرین کی نصف سے زیادہ تعداد بچوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے کم از کم ایک لاکھ ایسے ہیں جو یا تو اکیلے مہاجرت کے سفر پر ہیں اور یا وہ بچے ہیں جو سن 2015 میں حادثاتی طور پر اپنے والدین سے بچھڑ گئے تھے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں جبری نقل مکانی کی شرح میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے والے حالات میں تبدیلی نہیں آ رہی اور ایسی صورت و حالات تواتر سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بے گھر افراد کو درپیش مسائل کے حل کی تلاش کی شرح میں سرد جنگ کے بعد سے کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سیاسی پناہ کی دائر کردہ درخواستوں کے حوالے سے بھی سن دو ہزار پندرہ ایک ریکارڈ سال رہا ہے۔ جرمنی میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی چار لاکھ چالیس ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ تعداد بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے افراد کو پناہ دینے کی جرمنی کی آمادگی کو ظاہر کرتی ہے۔
ترکی پناہ گزینوں کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد یعنی لگ بھگ 2.5 ملین افراد کا میزبان رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر مہاجرین کی نصف تعداد تین ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ شام، افغانستان اور صومالیہ جن میں شام سے 4.9 ملین، افغانستان سے 2.17 ملین اور صومالیہ سے 1.1 ملین افراد نے ہجرت کی ہے۔