ہر تیسرا بھارتی انتہائی بدعنوان ہے: سابق ویجیلنس کمشنر
8 ستمبر 2010سنٹرل ویجیلنس کمیشن کے گزشتہ ہفتے ریٹائر ہونے والے سربراہ پراتیوش سنہا نے بدعنوانی کی بڑھتی ہوئی قبولیت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا: " جب ہم بڑے ہورہے تھے تو مجھے یاد ہے کہ اگر کوئی بدعنوانی میں ملوث ہوتا تھا تو معاشرے میں اس کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب بھارتی معاشرے نے بدعنوان لوگوں کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ عہدِ حاضر میں دولت مند لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی۔"
بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن کے اعتبار سے دنیا کے ممالک کی درجہ بندی کے مطابق بھارت کا نمبر 84 ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق سب سے زیادہ 10پوائنٹس میں سے جو کہ کرپشن سےبالکل پاک ہونے کی صورت میں دیے جاتے ہیں، بھارت کو 3.4 پوائنٹس ملے۔ نیوزی لینڈ 9.4 پوائنٹس کے ساتھ اس درجہ بندی پر سرفہرست جبکہ صومالیہ 1.1 پوائنٹ کے ساتھ آخری نمبر پر ہے۔
بھارت میں بدعنوانی کے خلاف عمل پیرا گروپوں کے مطابق ہر سال کئی ملین غریب شہریوں کو بنیادی سہولیات کے حصول کے لئے بھی سرکاری اہلکاروں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔
منگل کے روز چھپنے والے ایک اخباری انٹرویو میں سنہا نے کہا کہ 20 فیصد بھارتی ایماندرا ہوتے ہیں چاہے انہیں بدعنوانی کے کتنے ہی مواقع کیوں نہ ملیں۔ ایسے لوگوں کا ضمیر زندہ ہے۔ 30 فیصد کے قریب لوگ انتہائی بدعنوان ہوتے ہیں جبکہ باقی 50 فیصد ایسے ہیں جنہیں آپ 'بارڈر لائن' کیس کہہ سکتے ہیں یعنی ایسے نسبتاﹰ کم بدعنوان ہیں۔ "
بھارت میں بدعنوانی کے تازہ اسکینڈلز کا تعلق اگلے ماہ سے شروع ہونے والے دولتِ مشترکہ کھیلوں کی تیاریوں اور اس سلسلے میں ہونے والے تعمیراتی کام سے ہے۔ اس کے علاوہ کرکٹ کی معروف انڈین پریمیئر لیگ میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کے معاملات بھی سامنے آچکے ہیں۔
بھارت میں غیر قانونی سٹے بازی،جوئے اور اسپاٹ فکسنگ جیسی سرگرمیاں کافی عام ہیں۔
بھارت کے وزیرِ ِاعظم من موہن سنگھ متعدد مرتبہ رشوت، دھوکہ دہی اور ناجائز پیسے بنانے جیسے معاملات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بھارتی معشیت کے مستقبل کے لئے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت : افسر اعوان