افغان خواتین کے لیے زچگی زندگی اور موت کی جنگ بن گئی
27 دسمبر 2023طویل مسافت طے کر کے ایک دیہی علاقے سے افغانستان کے شہر خوست میں واقع ہسپتال پہنچنے والی اس حاملہ خاتون کا نام زبیدہ تھا۔ 'ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ یا ایم ایس ایف نامی بین الاقوامی امدادی ادارے کے تحت چلنے والے اس میٹرنٹی ہسپتال میں صرف ان عورتوں کو طبی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جن کے زچگی کے کیسز پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور جن کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔
زبیدہ جب یہاں پہنچیں، تو ان کے دل میں بھی وہی خوف تھا جو اب تقریباﹰ ہر حاملہ افغان خاتون کے دل میں ہوتا ہے، کہ یا تو وہ یا پھر ان کی ہونے والی اولاد زندہ نہیں بچے گی۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور زبیدہ اور ان کا بچہ دونوں ہی محفوظ رہے۔
اپنے بچے کی پیدائش کے بعد خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے زبیدہ کا کہنا تھا، ''اگر میرے بچے کی پیدائش گھر پر ہوتی، تو ہم دونوں کے لیے مشکلات ہو سکتی تھیں۔‘‘
لیکن اس ہسپتال میں آنے والی ہر مریضہ کی قسمت زبیدہ جیسی نہیں ہوتی۔
خوست میں ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز سے وابستہ مڈوائفری کی ہیڈ ٹیریسا تھوایزابا کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی خواتین گھر پر بچے کی ولادت کے بعد ہسپتال پہنچتی ہیں اور اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اس ہسپتال میں سالانہ تقریباﹰ بیس ہزار بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، جہاں ٹیریسا کے علاوہ کم و بیش 100 دیگر دائیاں بھی افغانستان میں خواتین کی زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی شرح کم کرنے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
ایک لاکھ بچوں کی پیدائش کے دوران چھ سو سے زائد خواتین کی موت
افغانستان میں زیادہ بچے پیدا ہونا باعث فخر سمجھا جاتا ہے، لیکن وہاں زچگی کا عمل حاملہ خواتین کی زندگیوں کے لیے خطرات کا باعث بھی بنتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان اسٹیفین ڈوجارک نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ زچگی کے دوران ہونے والی اموات کے لحاظ سے افغانستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں کی صورت حال بدترین ہے اور جہاں ہر دو گھنٹے میں زچگی کے دوران ایک خاتون کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء سے افغانستان میں ہر ایک لاکھ زندہ بچوں کی پیدائش کے دوران 638 خواتین کی موت واقع ہو جاتی ہے، جبکہ امریکہ میں اسی تناسب سے اموات کی تعداد 19 بنتی ہے۔
نارویجین افغانستان کمیٹی نامی ادارے سے وابستہ تریا واٹرڈال کا اس حوالے سے اندازہ ہے کہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں ہر ایک لاکھ زندہ بچوں کی پیدائش کے دوران تقریباﹰ پانچ ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
افغانستان: قدامت پسند معاشرہ، زچہ و بچہ کی ہلاکت کا سبب
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہاڑی علاقوں سے مرد خواتین کو کندھوں پر اٹھا کر ہسپتال تک لانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن راستے ہی میں ان خواتین کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
واٹرڈال نے اس طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے زچہ بچہ امراض کی ماہر بہت سی ڈاکٹر ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکام افغانستان میں اب موبائل میڈیکل ٹیموں کو بھی کام نہیں کرنے دینا چاہتے کیونکہ یہ ٹیمیں صحت کے حوالے سے جو تفصیلات اور معلومات افغان خواتین کو فراہم کرتی ہیں، طالبان انہیں کنٹرول نہیں کر سکتے۔
اس حوالے سے افغانستان میں ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے ڈائریکٹر فیلپ ربیرو کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایک عام خاتون کے لیے زچگی اور اس کے بعد درکار صحت کی سہولیات تک رسائی ہمیشہ مشکل رہی ہے اور اب اس مشکل میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ افغان حکام کی جانب سے کیے گئے اقدامات اور اس ملک میں صحت کے نظام سے جڑی خامیاں اور ناکامیاں بھی ہیں۔
افغانستان کی وزارت صحت سے اس مسئلے پر تبصرے کے لیے بار ہا رابطہ کیا گیا لیکن اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں موصول نہیں ہوا۔
معاشی بحران کے باعث صورت حال بدتر
غیر حکومتی امدادی ادارے 'تَیغ دے زوم‘ سے وابستہ کابل کی نور خانم احمد زئی کے مطابق ملک میں معاشی بحران نے صورت حال بدتر کر دی ہے۔
اس وقت افغانستان میں ایک بچے کی پیدائش پر اوسطاﹰ تقریباﹰ بیس ہزار افغانی یا انتیس امریکی ڈالر کے برابر خرچ ہوتے ہیں اور اکثر افغان خاندانوں کے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے۔
نور خانم کا کہنا ہے کہ جو خواتین پہلے سرکاری ہسپتالوں میں جاتی تھیں، وہ مالیاتی تنگ دستی کے باعث اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات کے باوجود اب اپنے بچوں کو گھروں پر ہی جنم دیتی ہیں۔
م ا / م م (اے ایف پی)