1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہر کوئی انسانی اعضاء کا عطیہ دہندہ، نیا جرمن مسودہ قانون

1 اپریل 2019

جرمن وزیر صحت شپاہن نے ایک ایسا مسودہ قانون پیش کر دیا ہے، جس کے تحت ہر کوئی خود بخود انسانی اعضاء کا عطیہ کنندہ بن جائے گا۔ جو کوئی ایسا نہیں چاہے گا، وہ اپنے لیے اس قانون پر عمل درآمد سے استثنیٰ کی درخواست دے سکے گا۔

https://p.dw.com/p/3G2rq
Symbolbild Ärzte bei einer Operation
تصویر: picture-alliance/Zuma Wire/US Navy

وفاقی جرمن وزیر صحت ژینس شپاہن نے پیر یکم اپریل کو جس نئے جرمن قانون کا ابتدائی مسودہ پیش کیا، اس کا مقصد ملک میں انسانی اعضاء کے عطیہ کیے جانے کی موجودہ غیر تسلی بخش صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔ جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، کافی عرصے سے بیمار افراد کو پیوند کاری کے لیے مختلف انسانی اعضاء کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے دستیاب اعضاء مجموعی قومی ضروریات سے بہت کم ہوتے ہیں۔

یہ نیا مسودہ قانون دراصل اس شعبے میں اب تک مروجہ قانون میں اصلاحات کی ایک کوشش ہے، لیکن اس کی وجہ سے ملک میں ایک نئی اور بہت بھرپور بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔ جرمنی میں عام شہریوں کی طرف سے اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کیے جانے کی شرح کافی کم ہے اور اب تک رائج قانون کے تحت جو لوگ بعد از مرگ اپنے اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں ہی ان آئندہ عطیات کی اجازت دے دیتے ہیں۔

اس کے برعکس نئے مسودہ قانون کی منظوری کی صورت میں اس ملک کا ہر مستقل رہائشی خود بخود انسانی اعضاء کا عطیہ کنندہ بن جائے گا اور جو ایسا نہیں کرنا چاہے گا، اسے درخواست دے کر اپنا نام اس فہرست سے نکلوانا پڑا کرے گا۔

Infografik durchgeführte Organspende EN

مسودہ قانون میں ہے کیا؟

اس مسودہ قانون کے تحت انسانی اعضاء کے عطیات کے لیے ایک ’دوہرا آپٹ آؤٹ‘ نظام متعارف کرانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوں جرمنی میں ہر شہری اور اس ملک میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہر غیر ملکی خود بخود اس نظام کا حصہ بن جائے گا اور ایک رجسٹرڈ ’آرگن ڈونر‘ ہو گا۔

عام شہریوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ ایک درخواست دے کر اپنے انسانی اعضاء کے عطیہ کنندہ ہونے سے انکار کر سکیں۔ یہ فہرست ایسے شہریوں کی لسٹ ہو گی، جو اپنے جسمانی اعضاء عطیہ نہیں کرنا چاہیں گے۔

اسی قانون کے تحت کسی بھی شہری کے اہل خانہ کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنے کسی بھی رکن کی طرف سے جسمانی اعضاء عطیہ کیے جانے کے خلاف درخواست دے سکیں۔ مزید یہ کہ کسی بھی ایسے شہری کے جسمانی اعضاء عطیہ کیے جانے سے قبل متعلقہ شخص کی ذہنی موت کی صورت میں ڈاکٹروں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ متوفی کے اہل خانہ کی رضامندی بھی حاصل کریں۔

اس مجوزہ قانون کی منظوری کے بعد جب یہ نافذ ہو جائے گا، تو عام شہریوں کو کئی بار اس بارے میں مطلع کیا جائے گا کہ ان کی اپنے اعضاء عطیہ کرنے والے افراد کے طور پر رجسٹریشن ہو گئی ہے اور اگر وہ اس پر کوئی اعتراض کرنا چاہیں، تو ایسا کر سکتے ہیں۔

ریبیکا اشٹاؤڈن مائر / م م / ش ح