1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہزاریہ اہداف‘ پر اقوام متحدہ کی سربراہ کانفرنس

20 ستمبر 2010

پیر 20 ستمبر کو نیویارک میں غربت کے موضوع پر ایک عالمی سربراہ کانفرنس شروع ہو رہی ہے، جس میں اقوام متحدہ کا ادارہ دُنیا میں بھوک اور بیماریوں کے خاتمے کی جانب ایک بڑی پیشرفت کی امید کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/PGET
’ہزاریہ اہداف‘ کی سابقہ کانفرنستصویر: picture alliance/dpa

یہ کانفرنس تین روز تک جاری رہے گی اور اِس میں اُن ’ہزاریہ اہداف‘ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، جن کا تعین 2000ء میں کیا گیا تھا۔ اُس برس اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے آٹھ اہداف مقرر کئے تھے اور طے کیا تھا کہ 2015ء تک اور باتوں کے علاوہ بھوک اور انتہائی غربت کے شکار افراد کی تعداد میں نصف کمی اور ماؤں اور نومولود بچوں کی شرحِ اموات میں نمایاں کمی کے اہداف حاصل کئے جائیں گے۔ چند اہم اہداف درج ذیل ہیں:

غربت اور بھوک

2015ء تک دُنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد میں 1990ء کے مقابلے میں نصف کمی کا ہدف طے کیا گیا تھا، جن کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمگیر معاشی بحران نے اِس سمت میں پیشرفت کی رفتار سست کر دی ہے لیکن یہ کہ ابھی بھی اِس ہدف کا حصول ممکن ہے۔ خواتین اور نوجوانوں سمیت تمام لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کا ہدف بھی طے ہوا تھا لیکن عالمگیر اقتصادی بحران نے اِس ٹارگٹ کو بھی شدید طور پر متاثر کیا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر میں روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں اور زیادہ ورکرز اب ’انتہائی غربت کی زندگی‘ گزار رہے ہیں۔ بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں نصف کمی کے ہدف کا حصول بھی معاشی بحران اور خوراک کے بحران کی وجہ سے مشکل نظر آ رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر چار میں سے ایک بچے کا وزن ابھی بھی مطلوبہ وزن سے کم ہے۔

دُنیا بھر میں پرائمری تعلیم

اِس ہدف کے حصول کی امیدیں کمزور پڑتی جا رہی ہیں کہ 2015ء تک دُنیا کے ہر خطے میں بچے اور بچیاں پرائمری تعلیم کا کورس مکمل کرنے کے قابل ہوں گی۔ افریقی سب صحارا کے علاقوں اور جنوبی ایشیا میں بچوں کی ایک بڑی اکثریت ابھی بھی اسکول نہیں جاتی۔

UN Millennium Gipfel in New York Flash-Galerie
سن دو ہزار کی ’ہزاریہ اہداف‘ کی سربراہی کانفرنس کے شرکاءتصویر: picture alliance/dpa

صنفی مساوات

ایک ہدف یہ ہے کہ 2015ء تک پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں تمام سطحوں پر صنفی امتیاز ختم کر دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی کچھ خطوں میں لڑکیوں کو سرے سے تعلیم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ غربت ہے۔ تقریباً تمام ترقی پذیر خطّوں میں باروزگار مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اعلیٰ عہدے بھی زیادہ تر مردوں کو ہی ملتے ہیں۔

بچوں کی صحت

ہدف یہ ہے کہ 2015ء تک پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں شرحِ اموات میں 1990ء کے مقابلے میں دو تہائی کمی ہونی چاہئے۔ اِس شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ اگلے پانچ برسوں کے دوران مطلوبہ ہدف حاصل کیا جا سکے۔ نمونیے اور اسہال کے خلاف زیادہ بھرپور کوششوں اور زیادہ اچھی خوراک سے کئی ملین بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

ماؤں کی صحت

زچگی کے دوران ماؤں کی شرحِ اموات میں 2015ء تک 1990ء کے مقابلے میں تین چوتھائی کمی کا ہدف بھی صحت کی بنیادی سہولتوں کے فقدان کے سبب حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ افریقی سب صحارا علاقوں اور جنوبی ایشیا میں اب بھی بڑی تعداد میں خواتین پیشہ ورانہ مدد کے بغیر بچے جنتی ہیں۔

ان اہداف کے ساتھ ساتھ ایڈز اور ملیریا کے پھیلاؤ کو مکمل طور پر روکنے اور تمام متاثرہ افراد کو ایڈز کے علاج کی سہولتیں بہم پہنچانے کے بھی اہداف طے کئے گئے تھے، جن کی جانب کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ ایڈز کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث بننے والے مرض تپِ دق کے خلاف بھی کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں۔

ایک اہم ہدف کا تعلق ماحول اور پائیدار ترقی سے بھی تھا۔ اگرچہ گزرے چند برسوں کے دوران جنگلات کی کٹائی کی رفتار میں کچھ کمی ہوئی ہے لیکن اِس حوالے سے صورتِ حال بدستور تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ دُنیا کی ایک بڑی اکثریت بدستور انٹرنیٹ تک رسائی سے بھی محروم چلی آ رہی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں