ہم جنس پرستوں کی شادیاں: جرمن ایوان بالا کا میرکل پر دباؤ
12 جون 2015برلن سے موصولہ مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق آج جمعہ 12 جون کے روز وفاقی صوبوں کے نمائندہ اور بنڈس راٹ کہلانے والے ایوان بالا نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے میرکل حکومت سے مطالبہ کر دیا کہ ملک میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے والے ہم جنس پرست شہریوں کی رجسٹرڈ پارٹنرشپ کو بھی اس روایتی شادی کے عین برابر قرار دیا جائے، جس کے فریق مخالف جنس کے افراد ہوتے ہیں۔
اس بارے میں برلن میں پارلیمانی ایوان بالا کی کارروائی کے دوران آج جس مسودہء قانون کی منظوری دے دی گئی، وہ شمالی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو ملک میں اس عدم مساوات کو قطعی طور پر ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہییں، جو آپس میں روایتی شادیاں کرنے والے مخالف جنس کے شہریوں اور ایک دوسرے کے ساتھ رجسٹرڈ پارٹنرشپ کے طور پر زندگی گزارنے والے ہم جنس پرست افراد کو حاصل قانونی حقوق کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔
قرارداد کے مسودے کے مطابق وفاقی حکومت کو ملک سے ان منفی اثرات کا خاتمہ کرنا چاہیے، جن کا سامنا ہم جنس پرست جوڑوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ایوان بالا نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی بچے گود لینے کے وہی قانونی حقوق حاصل ہونے چاہییں جو عام شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہیں۔
اس قرارداد کی جرمنی میں کُل سولہ میں سے نو وفاقی صوبوں کی حکومتوں کی طرف سے حمایت کی جا چکی ہے۔ ایسی ہی ایک قرارداد بنڈس راٹ نے 2013ء میں بھی منظور کی تھی لیکن پارلیمانی مدت پوری ہو جانے کی وجہ سے اس پر بنڈس ٹاگ کہلانے والے ایوان زیریں میں بحث یا رائے شماری نہیں ہو سکی تھی۔
آج ایوان بالا میں رائے شماری سے قبل وفاقی صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کی خاتون وزیر اعلٰی مالُو درائیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم جنس پرست افراد کی شادیوں کو بھی باقاعدہ شادی تسلیم کرنا اور دونوں طرح کی پارٹنرشپ میں سے کسی بھی طرح کی زندگی گزارنے والے تمام شہریوں کو برابر حقوق کی قانونی ضمانت دینا طویل عرصے سے لازمی ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس شعبے میں ابھی تک ایسے امتیازی قوانین موجود ہیں، جن کو سمجھنا اب مزید ممکن نہیں رہا۔‘‘
اس پارلیمانی بحث کے دوران اپنے خطاب میں جنوبی صوبے باویریا کے وزیر انصاف وِنفریڈ باؤزباک نے نہ صرف قرارداد کی مخالفت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اس قرارداد کے ذریعے ’ایسے امور کو مساوی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو مساوی نہیں ہیں‘۔
نیوز ایجنسی اے پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ آج کی قرارداد سے ایوان بالا نے میرکل حکومت پر اپنے دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ انگیلا میرکل کی قیادت میں موجود وسیع تر مخلوط حکومت عملاﹰ ایسا کچھ کر سکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس قرارداد کی ایوان بالا نے منظوری دی ہے اس پر عمل درآمد کی ایک تو وفاقی حکومت پابند نہیں ہے کیونکہ اس نے بندس ٹاگ کو کوئی قانونی مسودہ بحث اور فیصلے کے لیے بھجوانے کا فیصلہ نہیں کیا اور دوسرے یہ کہ ہر قسم کی شادیوں کے لیے برابر قانونی حیثیت کی موجودہ حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اگر حامی ہے تو میرکل کی قدامت پسند جماعت اس کی مخالف ہے۔