1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم دونوں ابراہیم کی اولاد ہیں: نیتن یاہو

24 ستمبر 2011

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم نے جمعے کو خطاب کیا۔ نئی صورت حال کے تناظر میں اسرائیل اور فلسطین کو چار فریقی گروپ کی جانب سے فوری پر مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12fhA
نیتن یاہو اور بان کی مونتصویر: dapd

مشرق وسطیٰ کے لیے قائم چہار فریقی کوارٹیٹ نے فریقین کو اگلے چار ہفتوں میں امن مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ چار فریقی گروپ میں امریکہ، روس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ تین ماہ کے دوران اپنی سرحدی اور سکیورٹی معاملات کے تناظر میں تجاویز بھی پیش کریں۔ جرمن چانسلر نے کوارٹیٹ کی تجاویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ نے بھی اسے ایک مثبت پیش رفت سے تعبیر کیا ہے۔ اسرائیلی حکام نے ان تجاویز پر غور شروع کر دیا ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں محمود عباس کے بعد اپنی تقریر میں کہا، ’’وہ اکیلے امن قائم نہیں کر سکتے، وہ فلسطینییوں کے بغیر امن حاصل نہیں کر سکتے، ان دونوں قوموں کے مستقبل آپس میں جڑے ہیں، وہ دونوں ابراہیم کے بیٹے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی تقریر میں فلسطینی لیڈر محمود عباس کو فوری طور پر امن مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دینے کے علاوہ ملاقات کا بھی کہا۔

NO FLASH Benjamin Netanjahu UN Vollversammlung 2011
جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظمتصویر: dapd

نیتن یاہو کے ساتھ فلسطینی لیڈر کی ملاقات کا امکان موجود نہیں تھا کیونکہ محمود عباس جمعے کی شام ہی کو نیو یارک سے اپنی اگلی منزل کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ عباس کی درخواست پر اب سکیورٹی کونسل پرسوں پیر کو بحث کرنے والی ہے۔ نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی پر واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے امن کا حصول ممکن نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل امن کے لیے بہت مشکل اور تکلیف دہ فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے۔ نیتن یاہو نے 193ویں رکنی جنرل اسمبلی میں کہا کہ وہ فلسطینی عوام کی جانب اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بینجمن نیتن یاہو نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ فلسطینی یقینی طور پر اپنی آزاد ریاست میں رہیں گے لیکن انہیں بھی بعض معاملات پر کمپرومائز کرنا ہو گا کیونکہ کمپرومائز کرنے کے بعد ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے گا۔ اپنی تقریر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے ملک کے محفوظ مستقبل اور سلامتی کی مناسبت سے بھی اظہار خیال کیا۔ نیتن یاہو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا ملک ایک آزاد فلسطین کو تسلیم کرنے والا آخری ملک بننا نہیں چاہتا بلکہ وہ اسے سب سے پہلے تسلیم کرے گا۔ نیتن یاہو کے مطابق اب فلسطینیوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے۔

دوسری جانب فلسطین کے علاقے غزہ میں حکومت کرنے والی انتہاپسند تنظیم حماس نے محمود عباس کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھیک مانگنے سے تعبیر کیا ہے۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کے مطابق ریاست کسی قرارداد کی منظوری سے وجود میں نہیں آتی بلکہ اپنی زمین کو آزاد کروانے کے بعد ہی کسی ریاست کا وجود عمل میں آتا ہے۔

رپورٹ:  عابد حسین ⁄  خبر رساں ادارے

ادارت:  عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں