1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم کتاب پڑھنے اور شاعری کی خاطر رُلنے والی آخری نسل ہیں‘

25 اگست 2024

ادب سے وابستہ اسّی اور نوے کی دہائی میں جوان ہونے والی نسلیں اور گزشتہ دو دہائیوں میں سامنے آنے والے نوجوان ادیب بالکل مختلف دنیا کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج کا ادیب پچھلی نسلوں سے مختلف کیسے ہے؟

https://p.dw.com/p/4jdGP
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام 14 سے  16 اگست تک تین روزہ ’نسل نو ادبی میلہ‘ منعقد ہوا، جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے نوجوان مصنفین نے بڑی تعداد میں شرکت کی
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام 14 سے  16 اگست تک تین روزہ ’نسل نو ادبی میلہ‘ منعقد ہوا، جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے نوجوان مصنفین نے بڑی تعداد میں شرکت کیتصویر: Farooq Azam/DW

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام 14 سے  16 اگست تک تین روزہ ’نسل نو ادبی میلہ‘ منعقد ہوا، جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے نوجوان مصنفین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس میلے کا مقصد تربیتی ورکشاپس کے ذریعے 30 سال سے کم عمر نوجوانوں ادیبوں کی فنی صلاحیتوں کو نکھارنا اور انہیں نامور ادبی شخصیات کے ساتھ مکالمے کا موقع فراہم کرنا تھا۔

  ادب سے وابستہ اسّی اور نوے کی دہائی میں جوان ہونے والی نسلیں اور گزشتہ دو دہائیوں میں سامنے آنے والے نوجوان ادیب بالکل مختلف دنیا کا سامنا کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں جوان ہونے والا پاکستانی ادیب پچھلی نسلوں سے کیسے مختلف ہے؟ وہ کن رجحانات سے متاثر ہو رہا اور انہیں کیسے اپنی ادبی تخلیقات میں جگہ دے رہا ہے؟

ڈی ڈبلیو اردو نے میلے میں آئے نوجوانوں اور دیگر ادبی شخصیات سے یہی جاننے کی کوشش کی ہے۔

’ماضی اور حال کا مکالمہ تھا، جس سے روشن مستقل کی امید بندھی ہے‘

سوشل میڈیا کے دور میں نوجوان آپس میں اور پچھلی نسلوں کے ادیبوں سے جڑے ہیں، ایسے میں انہیں ایک جگہ جمع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

 آج کی نوجوان نسل اپنے انداز بیان میں بھی پچھلی نسلوں سے بہت مختلف ہے
آج کی نوجوان نسل اپنے انداز بیان میں بھی پچھلی نسلوں سے بہت مختلف ہےتصویر: Farooq Azam/DW

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن اور معروف ادیبہ ڈاکٹر نجیبہ عارف ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ”مضافات ادب کی نرسریاں ہیں، بڑے مراکز سے دور چھوٹے شہروں اور دیہات میں بیٹھ کر تخلیقی سرگرمیوں سے جڑے نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ ایک خیال تھا کہ انہیں ایسے ادیبوں کو سامنے بیٹھ کر سننے، ان سے سیکھنے اور ان کے سامنے اپنی تخلیقات پیش کرنے کا موقع نہیں ملتا، ہم نے پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش کی۔ مری آرٹس کونسل میں 35 نوجوانوں نے اپنی نثری، شعری اور تنقیدی تخلیقات پیش کیں، 10 مختلف ورکشاپس منعقد ہوئیں، نمائندہ تخلیق کاروں سے مکالمے کے چار سیشن ہوئے، یہ دراصل ماضی اور حال کا مکالمہ تھا، جس سے روشن مستقل کی امید بندھی ہے۔"

وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس کوشش میں توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی ہے، ”ہم نے رجسٹریشن کا عمل شروع کیا تو ذہن میں شبہات تھے کہ دور دراز کے نوجوان دلچسپی لیں گے بھی یا نہیں، تقریباً پونے دو سو نوجوانوں نے رجسٹریشن کی، جس میں سکردو سے ڈیرہ اسماعیل خان تک کے علاقوں سے تقریباً 130 نوجوان شریک ہوئے، اس بات کی خوشی الگ ہے کہ تقریباً ساٹھ فیصد بچیاں تھیں۔"

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام 14 سے  16 اگست تک تین روزہ ’نسل نو ادبی میلہ‘ منعقد ہوا، جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے نوجوان مصنفین نے بڑی تعداد میں شرکت کی
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام 14 سے  16 اگست تک تین روزہ ’نسل نو ادبی میلہ‘ منعقد ہوا، جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے نوجوان مصنفین نے بڑی تعداد میں شرکت کیتصویر: Farooq Azam/DW

ملتان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ادیب سجاد نعیم نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”جن لوگوں کو دور سے رشک کی نظر سے دیکھتے آئے، انہیں سامنے دیکھنا، ان سے ملنا ہماری ادبی زندگی کی ناقابلِ فراموش یاد ہے۔" اسی طرح گجر خان سے تعلق رکھنے والی آمنہ رؤف کا کہنا تھا، ”تربیتی ورکشاپس کے ذریعے ہم نے بہت کم وقت میں کئی نئی چیزیں سیکھ لیں، جو تخلیقی تجربے کو لفظوں میں ڈھالتے ہوئے آئندہ ہمارے کام آئیں گی، یہاں نئے لکھنے والوں سے دوستیاں ہوئیں، جو بہت اچھا لگ رہا ہے۔"

آج کا نوجوان ادیب پچھلی نسلوں سے مختلف کیسے ہے؟

معروف شاعر اختر عثمان پچھلی نسل کے نمائندہ تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”ہماری نسل کسی نہ کسی نظریے سے جڑی تھی اور یہ وابستگی جذباتی سے زیادہ ذہنی یا شعوری تھی، یہ چیز آج کی نوجوان نسل میں نہیں پائی جاتی۔"

وہ کہتے ہیں ایک دوسرا نمایاں فرق 'روایت کا گہرا شعور‘ ہے، جو آج بہت کم دکھائی دیتا ہے، ”نوجوان نسل منفرد نظر آنا چاہتی ہے، وہ چونکا دینےکی کوشش کرتی ہے لیکن جدت کے شوق میں مزاحیہ شعر کہہ رہی ہے۔"

ہم نے میلے میں شریک مختلف نوجوانوں سے اس بارے میں ان کے خیالات جاننے کی کوشش بھی کی۔ آمنہ رؤف کہتی ہیں، ”تھوڑا بہت پتہ ہے لیکن مختلف نظریات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا، روایت کو جاننے کے لیے پرانے شاعروں کو پڑھنے کی کوشش کی تو وہ بہت مشکل لگتے ہیں۔"

 اس ادبی میلے میں شریک ماہ رخ کا کہنا تھا، ”آج مصروفیت اتنی ہو گئی کہ موٹی موٹی کتابیں پڑھنا مشکل ہے، میں زیادہ تر شاعری آن لائن پڑھ لیتی ہوں۔"

 آج کی نوجوان نسل اپنے انداز بیان میں بھی پچھلی نسلوں سے بہت مختلف ہے
آج کی نوجوان نسل اپنے انداز بیان میں بھی پچھلی نسلوں سے بہت مختلف ہےتصویر: Farooq Azam/DW

جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی رقیہ قیوم اس کا ذمہ دار معاشرے کو سمجھتی ہیں، ”یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں روایت کا گہرا شعور نہیں، ہم جلد از جلد شہرت چاہتے ہیں لیکن ہمیں ماحول ہی ایسا ملا، آپ دیکھیں کہ آج کا نوجوان اپنے نصاب کو لے کر کتنا پریشر میں ہے، نمبرز، ایڈمیشن، جاب، ہماری زندگیوں کا دائرہ یہی ہے، پچھلی نسلیں ایسے کسی پریشر میں نہ تھیں۔ آج سکول اور کالج سٹوڈنٹس کو اردو سب سے مشکل سبجیکٹ لگتا ہے۔"

 آج کی نوجوان نسل اپنے انداز بیان میں بھی پچھلی نسلوں سے بہت مختلف ہے۔

مقبول شاعر تہذیب حافی کہتے ہیں، ”بدلتی دنیا میں ہم تبدیل ہوئے، ہمارا تجربہ مختلف ہے، اس لیے اظہار کا قرینہ بھی مختلف ہے۔ ہم اگر پرانے الفاظ سے جڑے رہتے تو اپنی بات کہنا یا اپنے زمانے سے مکالمہ کرنا ممکن نہ ہوتا، آج 'آنچل‘ وہ معنی نہیں دیتا، جو 'دوپٹہ‘ دیتا ہے، ہم مقامی زبانوں کے قریب تر لفظیات استعمال کرتے ہیں۔"

’ہم کتاب پڑھنے اور شاعری کی خاطر رُلنے والی آخری نسل ہیں‘

آج کی نوجوان نسل پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ مطالعہ نہیں کرتی۔ نوجوان شاعر اور محقق عدنان بشیر کہتے ہیں، ”دراصل یہ نسل سوشل میڈیا فیم کی پیدوار ہے، جو شعر میں حکیمانہ ، فلسفیانہ یا عاشقانہ رمزیت اور  تہہ داری کے بجائے جذباتی اشتعال، شہوت انگیزی اور جگت نما مزاح کا تڑکا لگا کر داد، ویوز اور  لائیکس حاصل کرنے کو فن کی معراج سمجھتی ہے۔"

ایک خیال ہے کہ اس نسل کو حافی و زریون جیسے مقبول شاعروں نے 'خراب‘ کیا ہے۔ اس حوالے سے تہذیب حافی کہتے ہیں، ”شاعری جدید دنیا میں موسیقی اور فلم جیسی انٹرٹینمنٹ کے سامنے دب کر رہ گئی تھی، ہر جگہ گلوکار اور اداکار نظر آ رہے تھے، ہم نے شاعر کو پس منظر سے لا کر فرنٹ لائن میں کھڑا کیا، آج شاعر بھی سٹار جیسی فین فالوونگ رکھتا ہے، ہم نے شاعر کے امیج کو بحال کیا، ورنہ بدلتے حالات اور سوشل میڈیا کی چکاچوند میں یہ بہت پیچھے رہ جاتا۔"

وہ کہتے ہیں، ”ہم لوگوں نے سوشل میڈیا سے پہلے کتاب اور شاعری کے ساتھ دس پندرہ سال بسر کیے، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سوشل میڈیا نامی کوئی بلا آئے گی اور ہم مشہور ہوں گے۔ شہرت و مقبولیت ہمارا مسئلہ ہی نہ تھا۔ ہم کتاب پڑھنے اور شاعری کی خاطر رُلنے والی آخری نسل ہیں۔"