1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہولوکوسٹ: برطانوی سپاہی کی سوانح کی اشاعت

1 اپریل 2011

بانوے سالہ برطانوی سپاہی ڈینس ایوی نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں پر تشدد کے بارے میں اپنی ساٹھ سالہ خاموشی کو توڑ کر اس حوالے سے واقعات اور ذاتی مشاہدات کو کتابی شکل دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/10leB
تصویر: AP

ڈینس ایوی کو دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگی قیدی بنا کر جرمنی میں آؤشوئٹس کے قریب ایک لیبر کیمپ میں رکھا گیا تھا، جہاں وہ نازی اذیتی کیمپوں میں موجود قیدیوں کے ساتھ کام کرتا تھا۔

گو کہ ایوی نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے اجتماعی قتل کے بارے میں سن رکھا تھا، تاہم وہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا کہ آؤشوئٹس میں کیا ہوتا تھا۔

ایوی نے اس حوالے سے اپنی یاداشتیں اپنی سوانح حیات ’دی مین ہو بروک ان ٹو آؤشوئٹس‘ میں درج کی ہیں جو کہ اس نے راب برومبی کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھی ہے۔

65 Jahre Befreiung Auschwitz
ڈینس ایوی کے مطابق آؤشوئٹس ’زمین پر جہنم‘ تھا اور جو کچھ اس نے وہاں دیکھا، وہ دل دہلا دینے والا تھاتصویر: AP

اس بہت بزرگ سابقہ برطانوی سپاہی نے ایک انٹرویو میں بتایا، ’گو کہ خود میرے اپنے مشقتی کیمپ کی حالت بہت خراب تھی تاہم یہ اذیتی کیمپ کی صورت حال کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ ایوی کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب خود اس لیے دیکھنا چاہتا تھا کہ بعد میں دوسروں کو اس بارے میں بتا سکے۔

ایوی کے مطابق اس نے وہاں مسخ شدہ انسانی لاشوں کے انبار دیکھے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہر روز مارے جا رہے تھے، جن کو کیمپ میں موجود دوسرے قیدی اٹھا اٹھا کر لے جاتے تھے۔

ڈینس ایوی کے مطابق آؤشوئٹس ’زمین پر جہنم‘ تھا اور جو کچھ اس نے وہاں دیکھا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ چھ برس تک ایوی کو لگاتار ڈراؤنے خواب آتے رہے۔

برطانوی سپاہی ڈینس ایوی کا کہنا ہے کہ اس کی کتاب آج بھی موزوں ہے۔ ’غلط اور صحیح کے درمیان فرق مٹتا جا رہا ہے اور لوگ ہر چیز کو یہ کہہ کر تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہی تو زندگی ہے‘۔

کتاب کا اختتام اپنے خوفناک پس منظر کے باوجود رجائیت پر ہوتا ہے۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄  خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک