ہٹلر پر قاتلانہ حملہ، ٹام کروز کی تازہ فلم کا موضوع
5 فروری 2009اِس متنازعہ فلم میں بیس جولائی سن 1944 ء کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جب حملہ آور بم حملے کے ذریعے نازی سوشلسٹ آمرآڈولف ہٹلر کو قتل کرنے اور ایک عبوری حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ Walküre کہلانے والا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور نازیوں نے اِس حملے کے سلسلے میں کوئی دو سو افراد کو سزائے موت دی دی، جن میں اِس حملے کو عملی شکل دینے والے فوجی افسرشٹاؤفن برگ بھی شامل تھے۔
یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی جانے والی ان حالیہ چند فلموں میں شمار ہو رہی ہے، جو جرمنی میں مختلف حلقوں میں نزاعی بحث مباحثے کا موضوع رہی ہیں۔ ’’آپریشن وال کیورے‘‘ کی شوٹنگ کے دوران ہی اِس بات پر زبردست بحث مباحثہ شروع ہو گیا تھا کہ آخر اِس میں مرکزی کردار ہالی وُڈ کے نامور اداکار ٹَوم کروز سے ہی کیوں کروایا جا رہا ہے۔ ٹوم کروز کا تعلق سائنٹالوجی کے متنازعہ فرقے سے ہے۔
حال ہی میں جرمنی میں اِس فلم کی نمائش کے موقع پر ٹوم کروز کی جس زبردست طریقے سے آؤ بھگت کی گئی، اُسے سائنٹالوجی سے متعلقہ امور کی جرمن ماہر اُرسُلا کابیرٹا نے ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں:
’’سائنٹالوجی ایک آئین دشمن اور انتہا پسند تنظیم ہے، جو انسان اور معاشرے کے لئے ایک خطرہ ہے۔ اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جرمنی میں اِس کے اراکین پانچ یا چھ ہزار ہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ تنظیم ریاست اور معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔‘‘
اُرسُلا کابَیرٹا یا دیگر ناقدین اِس طرح کی بڑی فلموں میں ٹوم کروز کی اداکاری کو اِس فرقے کو بے ضرر ثابت کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ کچھ دیگر جرمنوں کے خیال میں ہٹلر کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والا فوجی افسر شٹاؤفن برگ ایک ہیرو تھا اور مطلق العنانیت کی علمبردار کسی تنظیم کے رکن کو اِس ہیرو کے کردار میں رنگ بھرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
نازی سوشلسٹ دور میں ہونے والی مزاحمت کے ایک سرکردہ ماہر پروفیسر پیٹر شٹائن باخ کے مطابق کئی مقامات پر حقائق کو بالکل ہی غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلم کے برعکس آپریشن وال کیُورے کا خاکہ خود شٹاؤفن برگ نے تیار نہیں کیا تھا۔
شٹائن باخ کہتے ہیں: ’’یہ بنیادی طور پر سیاق و سباق سے ہَٹ کر پیش کی جانے والی ایک کہانی ہے، جس میں تھرڈ رائش یا نازی سوشلشٹ دور کو محض ایک پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جیسا کہ پہلے بھی بہت سی امریکی فلموں میں ہو چکا ہے۔‘‘
پیٹر شٹائن باخ کے خیال میں یہ بھی غلط ہے کہ شٹاؤفن برگ روزانہ ڈائری لکھا کرتے تھے یا وہ ایک جنگی طیارے میں بیٹھ کر جائے واردات پر پہنچے تھے یا یہ بھی کہ واقعے کےروز شیو کرتے ہوئے اُنہوں نے خود کو جان بوجھ کر زخمی کر لیا تھا۔
کچھ دیگر جرمن حلقے اِس فلم کوسراہ رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جرمنی سے باہر کم ہی لوگ شٹاؤفن برگ کی جانب سے ہٹلر کو قتل کرنے کی کوشش کے واقعے کے بارے میں جانتے ہیں، چنانچہ اِس فلم کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ اِس تاریخی حقیقت کی تفصیلات جان سکیں گے۔
فلم کو سراہنے والوں میں خود شٹاؤفن برگ کی بیٹی بھی شامل ہے، جو کہتی ہے:’’مَیں فلم کو ممکنہ طور پر ہدفِ تنقید بنانے کے لئے تیار ہو کر گئی تھی لیکن فلم دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہ کوئی بلند آہنگ فلم نہیں ہے بلکہ اِسے بہت ہی لطیف انداز میں فلمایا گیا ہے، اِس پر بہت محنت کی گئی ہے۔ خوشی مجھے اِس بات کی ہوئی ہے کہ اِس میں کرداروں کے ساتھ احترام برتا گیا ہے۔‘‘