1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہیرو‘ یا ’زیرو‘: میننگ کی سزا پر رد عمل

میودراک زورچ / اے اے22 اگست 2013

وکی لیکس کے مخبر بریڈلی میننگ کو جولائی کے اواخر ہی میں اس پر عائد کی گئی فرد جرم کے بائیس میں سے بیس نکات میں، جن میں جاسوسی کا الزام بھی شامل ہے، قصور وار قرار دے دیا گیا تھا۔ اب اسے 35 برس کی سزائے قید سنا دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/19Up1
بریڈلی میننگ
بریڈلی میننگتصویر: Reuters

بریڈلی میننگ کو جاسوسی کے ساتھ ساتھ، خفیہ راز افشا کرنے، کمپیوٹر فراڈ اور چوری کے الزامات میں بھی قصور وار قرار دیا گیا۔ میننگ کے عہدے میں گزشتہ تواریخ سے تنزلی کرتے ہوئے اُسے فوج سے بھی نکال دیا گیا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی کی ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مورس ڈی ڈیوس کا خیال ہے کہ قید کے دوران اچھے چال چلن کی بناء پر میننگ کو آٹھ یا نو سال بعد معافی بھی مل سکتی ہے اور اُسے رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔

امریکی فوجی قانون کے مطابق ایک اپیل کورٹ ابھی اس سزا کی جانچ پڑتال کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ میننگ کے وکلاء اور بھی اداروں کے ہاں اس سزا کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا یہ ہے کہ صدر باراک اوباما کی جانب سے میننگ کو معافی دیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

عدالتی فیصلے میں سزا کے جواز میں کہا گیا ہے کہ میننگ نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے لوگوں کو خطرے سے دوچار کیا۔ میننگ نے امریکی فوج کے لانس کارپورل کی حیثیت سے عراق میں نومبر 2009ء تا مئی 2010ء اپنی تعیناتی کے دوران وزارتِ دفاع کے کمپیوٹروں سے تقریباً سات لاکھ دستاویزات اور خفیہ قرار دیے جانے والے مختصر پیغامات کو اپنے کمپیوٹر پر منتقل کیا اور پھر یہ سارا ڈیٹا انٹرنیٹ پلیٹ فارم وکی لیکس کو مہیا کر دیا۔

رائے عامہ کے جائزوں میں آدھی امریکی آبادی میننگ کو ایک ہیرو اور ایک محب وطن جبکہ باقی آدھی اُسے ایک غدار قرار دے رہی ہے
رائے عامہ کے جائزوں میں آدھی امریکی آبادی میننگ کو ایک ہیرو اور ایک محب وطن جبکہ باقی آدھی اُسے ایک غدار قرار دے رہی ہےتصویر: Reuters

خاص طور پر جنگ سے متعلقہ دستاویزات کی اشاعت نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی اور امریکی حکومت کو وضاحتیں دینے پر مجبور کر دیا۔ منظر عام پر آنے والے ڈیٹا میں وہ مشہور ویڈیو بھی شامل تھی، جس میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر کو بغداد میں شہریوں کا تعاقب کرتے اور اُنہیں ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے جواز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میننگ کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اُس کے اقدام کے نتیجے میں امریکا کو نقصان پہنچے گا۔

واشنگٹن کے اہم سیاسی تجزیہ کاروں میں سے ایک جَیک جینز کے خیال میں میننگ کے لیے اتنی زیادہ سزا باعث تعجب نہیں ہے:’’فوجی ہوتے ہوئے قانون کی توڑنے کا یہ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا۔‘‘ قدامت پسند ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے چارلس سٹائمن نے اپنے ابتدائی رد عمل میں میننگ کو ایک ایسا ’جرائم پیشہ شخص‘ قرار دیا، جس نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔ اب سیاستدان اور ماہرین اس بات پر اپنا اپنا نقطہء نظر بیان کر سکتے ہیں کہ میننگ ایک ’مخبر‘ ہے یا ایک ’غدار‘ تاہم عدالتی نقطہء نگاہ سے وہ اب ایک مجرم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس سزا کا مقصد دیگر افراد کو میننگ کے نقشِ قدم پر چلنے سے باز رکھنا ہے۔

امریکی عوام میننگ کے حوالے سے منقسم رائے رکھتے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ہر دوسرے امریکی شہری کے خیال میں بریڈلی میننگ نے امریکا کے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس لیے ایک غدار ہے۔ تاہم امریکی شہریوں کی اتنی ہی تعداد امریکی فوج کے اس کمپیوٹر ماہر کے اقدام کو سراہتی ہے اور اسے ایک محبّ وطن گردانتی ہے۔ مجموعی طور پر اس مقدمے میں امریکی شہریوں کی دلچسپی محدود ہی رہی۔

میننگ نے کئی روز پہلے ہی فوجی عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے اپنے اقدام پر معافی طلب کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ جو بھی سزا سنائی جائے گی، اُسے قبول ہو گی۔