ہیڈ اسکارف پر پابندی: کوسووو میں بھی احتجاج
25 جون 2010احتجاجی مظاہرے کی وجہ گزشتہ سال کوسووو کی وزارت تعلیم کی جانب سے اسکولوں میں مسلمان لڑکیوں کے سر ڈھانپنے یا ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ تھی۔ اس فیصلے کے بعد کوسووو میں مذہبی آزادی کے موضوع پر گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ کوسووو کے وزیر تعلیم ’انور ہوکس ہاج‘ نے اس فیصلے کو ملکی آئین کے عین مطابق قرار دیا۔ انہوں نے یہ بیان دراصل کوسووو کے آئین کی ایک شق کے حوالے سے دیا جس کے مطابق ’ کوسووو ایک سیکولر یا لا دین ریاست ہے اور مذہبی معاملات میں غیر جانب دار‘۔ وزیر تعلیم نے تاہم کہا کہ اگر عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہیڈ اسکارف پر پابندی کا فیصلہ آئین کی رو سے غلط ہے تو انہیں آئینی عدالت میں اپیل کرنا چاہئے۔ وہ کسی بھی عدالتی فیصلے کا احترام کریں گے۔
کوسووو سربیا کا سابقہ صوبہ ہے، جس نے دو سال قبل آزادی حاصل کر لی تھی۔ جنوب مشرقی یورپ میں واقع اس ریاست کا شمار یورپ کے کثیرالثقافتی ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں 87 فیصد البانوی، 7 فیصد سرب اور 4 فیصد دیگر نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے باشندے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پرشٹینا میں ہونے والا یہ مظاہرہ ایک انوکھا سماں پیش کر رہا تھا، کیوں کہ کوسوو وکی کل آبادی یعنی 2 اعشاریہ ایک ملین کا 90 فیصد حصہ مسلمان ہے تاہم ان لوگوں کے رہن سہن کا انداز سیکولر یا جدید مغربی طرز کا نظر آتا ہے۔
’خلیل کسٹراٹی ‘ اس مظاہرے کی قیادت کر رہے تھے۔ انہوں نے دمشق سے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آج کل یہ پرشٹینا میں قائم یتیم بچوں کے ایک خیراتی ادارے کے سربراہ ہیں۔ یہ نارمل مغربی لباس پہنتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ مغرب کو پسند کرتے ہیں۔ ’خلیل کسٹراٹی ‘ نے ایک مسیحی خاتون سے شادی کی، جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ ’حلیل کسٹراٹی ‘ کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے حامی تمام تر پُر امن وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ تاہم انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبے کو نہ مانا گیا، تو ان کے ایماء پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے پُرتشدد شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ 35 سالہ ’خلیل کسٹراٹی ‘ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو اپنے آفس میں بیٹھ کر یہ بیان دیا، جہاں امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو کے جھنڈے آراستہ ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ یورپ کے چند ممالک نے ہیڈ اسکارف پر پابندی لگائی ہے، کوسووو حکومت نے بھی یہ فیصلہ اس لئے کیا کہ اس اقدام سے ملکی سیکولر آئین کے احترام کو یقینی بنایا جا سکے۔ مزید یہ کہ یہ چھوٹا سا ملک خود کو یورپ کا حصہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اسے بھی یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کر لیا جائے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی