یروشلم سے بے دخلی: فلسطینیوں نے اسرائیلی تجویز مسترد کر دی
3 اگست 2021مشرقی یروشلم کے شیخ جراح علاقے میں بے دخلی کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ اپنے موجودہ گھر کو ایک یہودی آباد کار تنظیم سے کرائے پر حاصل کر لیں۔ ججوں کا کہنا تھا کہ اس سے وہ، ''محفوظ کرائے دار بن جائیں گے'' اور اس طرح شیخ جراح کے پاس میں واقع انہیں اپنے گھر سے بے دخل بھی نہیں ہونا پڑے گا۔
لیکن جو فلسطینی خاندان یہ طویل قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس انخلا سے آس پاس بسنے والے جو دیگر سینکڑوں افراد اس سے متاثر ہوں گے ان سب نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ وہ اس پر اسرائیلی ملکیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے جو تجویز پیش کی تھی اس کے مطابق فلسطینی خاندانوں کو سالانہ تقریباً 465 امریکی ڈالر کی رقم بطور کرایہ 'نہلت شمعون' کمپنی کو ادا کرنی پڑتی۔ یہی کمپنی اس علاقے پر ملکیت کا دعوی کرتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ شیخ جراح کے پاس بسے فلسطینی خاندان ان گھروں کو خالی کر دیں۔
اس مقدمے میں ایک فلسطینی محمد الکرد بھی شامل ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر عدالت کی اس تجویز پر نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''زمین کی ملکیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بجائے، عدالت نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی ہے اور ہم پر آباد کاروں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ اس بارے میں کوئی فیصلہ یا معاہدہ نہیں ہو پا یا۔''
یہودی اسرائیلیوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل الان شیمر نے مجوزہ معاہدے کو محض ایک، ''کھوکھلا انتظام قرار دیا۔''
مقدمے کی تفصیل کیا ہے؟
اس طویل مقدمے پر اسی برس فیصلہ آنا ہے تاہم اس فیصلے سے قبل فریقین کے درمیان کسی طرح کا سمجھوتہ ہو نے کی یہ آخری کوشش بتائی جا
رہی ہے۔ یہ زمین جس اسرائیل کمپنی کے نام رجسٹرڈ ہے وہ اس پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتی ہے اور کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے وہاں کے رہائشیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرانا چاہتی ہے۔
لیکن وہاں آباد فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ جائیدادیں تو انہیں اردن نے اس وقت دی تھیں جب اس نے 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا تھا اور ان تمام خاندانوں کو وہاں آباد کیا تھا۔
یروشلم کی مقامی عدالت نے گزشتہ برس اکتوبر میں فلسطینیوں کی اس دلیل کو مسترد کر دیا تھا اور ان فلسطینی خاندانوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ اس کے بعد ہی اس کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی۔
دو ماتحت عدالتوں کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی جائیدادقانون کے مطابق یہ مکانات یہودیوں کی ملکیت ہیں کیوں کہ انہوں نے یہ پلاٹ 1948 کی جنگ سے پہلے خریدے تھے۔ 1948 کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی تخلیق ہوئی تھی۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کو اس کیس میں فیصلہ اسی برس مئی میں سنانا تھا تاہم حکومتی وکلا کی اس گزارش پر کہ اس معاملے میں مزید غور و فکر کی ضرورت ہے اسے موخر کر دیا گیا تھا۔
یہ تنازعہ اتنا اہم کیوں ہے؟
عالمی برادری اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس کیس پر نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس برس خطے میں کئی بار تشدد ہوا ہے اور مئی میں ایک مختصر لڑائی میں ڈھائی سو سے زیادہ فلسطینی ہلاک بھی ہو گئے تھے۔
1956 میں جب مشرقی یروشلم اردن کے انتظام میں تھا، عمان نے شیخ جراح میں ان پلاٹس کی لیز فلسطینی خاندانوں کو دی تھی اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین نے ان پلاٹوں پر فلسطینیوں کو مکانات تعمیر کر کے دیے تھے۔ عمان حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان فلسطینیوں کو مکمل پراپرٹی حقوق دے گا، تاہم اس پر عمل نہ ہو سکا۔ لیکن 1967 میں اسرائیل نے جب مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تو، شیخ جراح کا علاقہ اسرائیل کا حصہ بنا لیا گیا۔ 1970 میں اسرائیل نے 1948 میں اپنی زمین کھو دینے والے یہودیوں کو یہ حق دیا کہ وہ اپنی کھوئی زمین پر حق کا دعویٰ دائر کر سکتے ہیں۔ اپنے گھر کھو دینے والے فلسطینیوں کو اسرائیل قانون یہ حق نہیں دیتا ہے۔
مقامی تنظیموں کے مطابق یوں شیخ جراح میں قریب ایک ہزار فلسطینی اپنے مکانات کھو سکتے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کا موقف ہے کہ اس کیس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ معاملہ دو نجی فریقوں کے درمیان ہے۔
شیخ جراح مشرقی یروشلم میں ہے جسے فلسطینی مستقبل کی کسی بھی فلسطینی ریاست کو اپنی دارالحکومت کے طور پر چاہتے ہیں۔ اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں مقدس شہر کے اس حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اب وہ تمام یروشلم کو اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)