یروشلم: مسجد اقصٰی میں پرتشدد جھڑپیں، 180 افراد زخمی
8 مئی 2021یروشلم میں بیت المقدس کے احاطے میں جمعے کے روز نمازیوں پر اسرائیلی پولیس کی فائرنگ اور اس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ شدید جھڑپوں میں 180 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ ان میں چھ اسرائیلی پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ فلسطینی طبی عملے اور اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ کم از کم 80 افراد کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ بہت سے لوگوں کے چہرے اور آنکھیں اسرائیلی پولیس کی طرف سے چلائی جانے والی ربر کی گولیوں اور اسٹن گن کے چھروں سے زخمی ہوئے ہیں۔
مسجد اقصٰی مسلمانوں کا تیسرا سب سے متبرک مقام ہے۔ یہودی بھی اسے اپنے لیے متبرک مقامات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔
تشدد کیسے شروع ہوا؟
بیت المقدس میں حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ ماہ رمضان کے دوران فلسطینیوں کی پرانے شہر کے کچھ حصوں تک رسائی پر اسرائیل کی جانب سے پابندی اور بعض فلسطینیوں سے ان کے گھروں کو خالی کرا کے اسرائیلی آباد کاروں کو دینے کے خلاف احتجاج بتایا جاتا ہے۔
جمعے کے روز جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب مسلمان مسجد اقصی کے احاطے میں نماز کے لیے جمع ہوئے تھے اور وہاں بھاری تعداد میں پولیس تعینات کردی گئی تھی۔
خبر رسا ں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فلسطینی پولیس کی طرف کرسیاں، جوتے اور پتھر پھینک رہے ہیں جس کے بعد پولیس نے ان پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔
اسرائیلی پولیس نے یروشلم کے پرانے شہر کے اندر مسجد اقصٰی کی طرف جانے والے دروازوں کو بھی بند کر دیا تھا۔
مسجد اقصی میں تصادم کے اس واقعے سے قبل اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک اسرائیلی پولیس چوکی کے پاس فائرنگ کر کے دو فلسطینیوں کو ہلاک اور تیسرے کو زخمی کر دیا تھا۔
اس سے قبل کیا ہوا تھا؟
قبل ازیں جمعے کے روز اسرائیلی فورسز نے بتایا کہ انہوں نے مشرقی یروشلم میں تصادم کے بعد پندرہ فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں نے پولیس افسران اور ان کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ دوسری طرف فلسطینی میڈیا کے مطابق اسرائیلی نوآبادکاروں اور پولیس نے شیخ جراح میں جمعے کی صبح کو ایک فلسطینی پر حملہ کیا۔
یروشلم میں حالیہ دنوں میں کشیدگی میں کافی اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اسرائیلی آبادکار شیخ جراح میں موجود فلسطینیوں کے گھروں کو خالی کرا کے وہاں نئی بستیاں آباد کرنا چاہتے ہیں۔
اس معاملے کی ایک عدالت میں سماعت بھی ہو رہی ہے۔ تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں کو عدالت کی حمایت حاصل ہے اور انہیں ان کے گھروں سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دینے کے بہت سے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
امریکا کی وارننگ
امریکا نے یروشلم میں کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف متنبہ کیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے کہا، ”ہمیں یروشلم میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر انتہائی تشویش ہے۔ کشیدگی کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے اور ایسے تمام اقدامات مثلاً لوگوں کو گھروں سے نکالنے، آبادکاری کی سرگرمیاں اورمکانات کے انہدام سے گریز کیا جائے جن سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ بعض ایسے فلسطینی کنبوں سے بھی گھر خالی کرائے جا رہے ہیں جو ان میں کئی نسلوں سے آباد ہیں۔
یہ 'جنگی جرائم‘ کے مترادف ہوگا
اقوام متحدہ نے اسرائیل کو مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکالنے کی کوشش روک دینے کی اپیل کی اور متنبہ کیا کہ اس کا یہ اقدام 'جنگی جرائم‘ کے مترادف ہوگا۔
اقو ام متحدہ انسانی حقوق کے ترجمان رپرٹ کول ویلے نے جنیوا میں نامہ نگاروں سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہم اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم مقبوضہ فلسطینی علاقے کا حصہ ہے، جہاں بین الاقوانی انسانی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔"
یورپی ممالک نے بھی گزشتہ روز اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ مغربی کنارے کے علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روک دے۔ اس حوالے سے جرمنی، فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ کی جانب سے جاری بیانات میں اسرائیل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث ایسے اقدامات سے اجتناب کرے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپی ملکوں کا کہنا تھا، ”ہم اسرائیلی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں 450 گھروں کی تعمیر کے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی توسیع پسندی کی پالیسی کو ختم کرے۔ اگر اس فیصلے پر عمل ہوتا ہے تو یہ ایک مستحکم فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے نقصان دہ ہو گا۔"
ج ا/ش ح (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)