یمن میں القاعدہ کے بمبار کے لئے سزائے موت
18 اکتوبر 2010یمن میں، جہاں ملکی سکیورٹی دستوں اور عسکریت پسندوں کے مابین خونریز جھڑپوں کے واقعات مسلسل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں، ملک میں حفاظتی انتظامات اور بھی سخت کر دئے گئے ہیں۔ اس دوران ملکی دستوں کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں بھی تیز تر ہوتی جا رہی ہیں جبکہ ملکی دارالحکومت صنعاء میں برطانوی اور امریکی سفارت خانوں کے ارد گرد سکیورٹی اقدامات پر خاص طور پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
صنعاء میں عدالت نے صالح الشاوش کو سزائے موت سناتے ہوئے کہا کہ اس ملزم کے خلاف یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ وہ ملک میں تیل کی متعدد اہم تنصیبات اور فوجی اہمیت کے اہداف پر ہلاکت خیز حملوں میں ملوث رہا ہے۔
اس عدالت نے الشاوش کو موت کی سزا اس لئے بھی سنائی کہ القاعدہ کے اس عسکریت پسند نے اپنے خلاف الزامات کا اعتراف بھی کر لیا تھا اور اسے اپنے کئے پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں تھا۔ اس کے برعکس جب اس مجرم کو سزائے موت سنائی گئی تو عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کھڑے اس نے چلا کر کہا: ’’خدا نے چاہا تو تمہارا خاتمہ ہمارے ہاتھوں ہی ہو گا اور ابتداء ابیان( کے علاقے) سے ہو گی۔‘‘
الشاوش نے فیصلے سے قبل اسی مہینے عدالت میں ایک سے زائد مرتبہ یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ یمن میں صنعاء سے مشرق کی طرف واقع ماریب اور حذرموت کے صوبوں میں وہ فوجی نوعیت کی اور تیل کی تنصیبات پر کُل سات ایسے حملوں میں ملوث رہا تھا، جن کی ذمہ داری بعد میں القاعدہ نے قبول کر لی تھی۔
صالح الشاوش کا ارادہ ہے کہ وہ خود کو سنائی گئی سزا کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کرے گا۔ الشاوش کو اسی سال 30 جنوری کو اس وقت رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ ایک موٹر سائیکل پر سوار صوبے حذرموت کے بندرگاہی شہر مُکلاّہ میں ایک خودکش حملہ کرنے جا رہا تھا۔ اپنی گرفتاری کے وقت اس نے اس حملے میں استعمال کے لئے تیار کی گئی دھماکہ خیز مواد والی ایک جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور اس کے قبضے سے دو بم بھی برآمد ہوئے تھے۔
یمن میں اس وقت القاعدہ کے درجنوں عسکریت پسندوں کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے۔ یمن کا شمار عرب دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا آبائی ملک بھی یمن ہی ہے۔
رپورٹ: سمن جعفری
ادارت: مقبول ملک