یمن میں انسانی المیہ اور امدادی کارکنوں کی بے بسی
26 فروری 2019جنیوا میں منگل کے روز شروع ہونے والی کانفرنس سے چند روز پہلے متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں اپیل کی تھی کہ یمن کو اس وقت صرف امداد کی نہیں بلکہ فوری امدادی کی ضرورت ہے۔ ان تنظیموں نے مشترکہ طور پر بین الاقوامی برادری سے ’موجودہ دور کے بدترین انسانی المیے‘ کے سیاسی اور معاشی حل کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت یمن کے تقریباً چوبیس ملین افراد کا انحصار امداد پر ہے۔ یہ اس ملک کی اسی فیصد آبادی بنتی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی اشیائے خوردو نوش کی کمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جنگ کے چار برس بعد اس ملک کی صورت حال تباہ کن ہے۔ جرمنی کی امدادی تنظیم ’ویلٹ ہُنگر ہیلفے‘ کے مطابق ملک کا زیادہ تر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور اس سے طبی مراکز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ چودہ ملین افراد کی بنیادی طبی دیکھ بھال تک رسائی ہی نہیں ہے۔ اسی طرح تقریباﹰ تیرہ ملین افراد صاف پانی اور سینیٹری کی سہولیات سے محروم ہیں۔ سن دو ہزار سترہ میں تقریباﹰ دس لاکھ افراد ہیضے سے متاثر ہوئے تھے۔
جنیوا میں ہونے والی کانفرنس اپنی نوعیت کی تیسری کانفرنس ہے۔ سن دو ہزار سترہ اور اٹھارہ میں بھی بین الاقوامی برادری نے کئی ارب یورو کی امداد فراہم کی تھی لیکن لاکھوں انسان ابھی بھی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ اس ملک کے لاکھوں ملازمین کئی کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ امدادی رقوم سے ایسے ملازمین کو کچھ رقم بھی ادا کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنے گھروں کو چلا سکیں۔
امدادی رقوم کے علاوہ اس ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ کھانے پینے کی اشیاء کی کمی ہے۔ بیرونی ممالک سے اشیاء کی درآمد کے لیے صرف چند ایک بندرگاہوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ چھوٹی بھی ہیں۔ انہی چند ایک بندرگاہوں پر بنیادی ڈھانچہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے بہت سا سامان تو اس ملک میں درآمد کیا ہی نہیں جا سکتا۔
یمن کے اندرونی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ امدادی تنظیم ’ویلٹ ہُنگر ہیلفے‘ سے منسلک زیمون پوٹ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جنگ زدہ علاقوں میں امداد پہنچانا انتہائی مشکل کام ہے، ’’بہت سے حصے مختلف گروپوں کے کنٹرول میں ہیں۔ جگہ جگہ ناکے ہیں اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کے لیے کئی طرح کے کاغذات درکار ہوتے ہیں۔ ایسے مسائل تھکا دینے والے ہیں۔‘‘
امدادی تنظیموں کے مطابق مقامی حکمرانوں کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی بہت ہی مشکل ہے۔ یہ حکمران خود امدادی رقوم اور اشیاء سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ امدادی کارکنوں سے ٹیکس کی مد میں بہت زیادہ پیسہ لیا جاتا ہے۔ ایک حکومت کے بغیر ویزے کے لیے بہت زیادہ پیسے مانگے جاتے ہیں۔
زیمون پوٹ کے مطابق ایسے مسائل دیگر جنگ زدہ خطوں میں بھی ہیں لیکن وہ یمن کا کوئی سیاسی حل چاہتی ہیں۔ ان کے مطابق اگر اس کا کوئی سیاسی حل نہ نکالا گیا تو اس ملک میں طویل المدتی اور مستحکم بہتری نہیں آ سکے گی۔
ا ا / ع ا