یمن میں سعودی عسکری اتحاد کا نیا حملہ
2 نومبر 2018خبر رساں ادارے روئٹرز نے سفاررتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے جمعے کے دن بتایا ہے کہ سعودی عسکری اتحاد نے علی الصبح صنعاء کے ببن الاقوامی ہوائی اڈے سے متصل ایک ایئر بیس پر فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ ایئر بیس ایران نواز باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔ ریاض حکومت کا الزام ہے کہ یہی وہ فوجی اڈا ہے، جہاں سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی عرب پر میزائل حملے کرتے تھے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن الاخباریہ نے سعودی عسکری اتحاد کے ترجمان کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ یمنی دارالحکومت صنعاء میں فضائی حملے کیے گئے۔ بیان کے مطابق اس ایئر بیس کو استعمال کرتے ہوئے یمنی باغی ڈرون اور میزائل حملوں سے سعودی عرب کا نشانہ بناتے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اس ایئر بیس پر تقریبا بیس فضائی حملے کیے گئے، جس سے پورا شہر گونج اٹھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس تازہ کارروائی کے باوجود صنعاء کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروزاوں کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری ہے۔ حوثی باغیوں کی حامی ٹیلی وژن نے بتایا ہے کہ الدلیمی ایئر بیس پر اور اس کے گردونواح کم ازکم تیس فضائی حملے کیے گئے۔
دوسری طرف یمن کے مغربی شہر الحدیدہ میں حوثی باغیوں اور یمنی فورسز اور اس کی حامی ملیشیا طاقتوں کے مابین لڑائی کا نیا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس کاروائی میں یمنی فورسز کو سعودی عسکری اتحاد کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہ تازہ تشدد ایک ایسے وقت میں دیکھا جا رہا ہے، جب کچھ دن قبل ہی یمن میں سیز فائر کے حوالے سے سعودی عرب نے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔
حوثی باغیوں نے سن دو ہزار چودہ میں یمن کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں حکومتی عہدیدار جلا وطن ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثی باغیوں کے خلاف باقاعدہ عسکری کارروائی شروع کی تھی۔ اس تشدد کی وجہ سے اب تک کم از کم دس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حوثی باغی اب بھی یمن کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں، جن میں دارالحکومت صنعاء بھی شامل ہے۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے یمن کا زیادہ تر انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ لڑائی کی وجہ سے اس عرب ملک کی ایک بڑی آبادی کو قحط کا شدید خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے اور خواتین ہیں۔
ع ب / ش ح/ خبر رساں ادارے