یمن میں پرتشدد واقعات ، 26 فوجی، 17 جنگجو ہلاک
30 جون 2011یہ جھڑپ جنوبی شہر زنجبار میں اس وقت شروع ہوئی جب حکومتی فوج نے وہاں واقع ایک اسٹیڈیم پر جنگجوؤں کا قبضہ ختم کرنے کے لیے کارروائی شروع کی۔ یمن میں شروع ہونے والی بغاوت کو کچلنے کی حمایت میں اس اسٹیڈیم میں فٹ بال کا ایک ٹورنامنٹ منعقد کروایا جا رہا تھا کہ جنگجوؤں نے وہاں قبضہ کر لیا۔ اب ملکی فوج جنگجوؤں کے خلاف جوابی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب ایک فوجی اڈہ بھی واقع ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے کہا ہے کہ تین سو سے زائد فوجی صنعاء حکومت سے الگ ہو کر ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے قریب ڈیڑھ سو ری پبلکن گارڈز بھی شامل ہیں، جن کی قیادت صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد کرتے ہیں۔ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ 150 ری پبلکن گارڈز، 130 فوجیوں اور ساٹھ پولیس اہلکاروں نے حکومت کا ساتھ چھوڑتے ہوئے باغیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صنعاء حکومت نے ابھی تک اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
دریں اثناء بدھ کے دن ہی یمنی فضائیہ کی ایک کارروائی میں زنجبار میں دس مسلح افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اسی طرح کی ایک دوسری فضائی کارروائی میں ایک بس کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں پانچ شہری ہلاک اور بارہ زخمی ہو گئے۔
اُدھر یمن کی ابتر سیاسی حالت کے تناظر میں صدر علی عبداللہ صالح نے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ وزیر خارجہ ابو بکر القربی نے اپنے ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ صدر علی عبداللہ صالح چاہتے ہیں کہ یمن کا بحران پر امن طریقے سے حل کیا جائے۔ ابو بکر القربی نے صدر صالح کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اقتدار انتقال کے لیے خلیجی ممالک کی طرف سے پیش کردہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
یمنی وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے سعودی عرب میں زیر علاج یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی عیادت کی ہے۔ ابو بکر کے بقول صالح تندرست ہو رہے ہیں۔ صالح اُس وقت زخمی ہو گئے تھے، جب جنگجوؤں نے یمنی دارالحکومت صنعاء میں واقع ان کے محل پر میزائل داغے تھے۔ اگرچہ یمنی حکام نے کہا تھا کہ صدر صالح تندرست ہونے کے بعد جلد ہی پہلی مرتبہ عوام سے نشریاتی خطاب کریں گے تاہم یمنی صدر کے میڈیا سیکریٹری احمد الصوفی نے خبر ایجنسی رائٹرز کو بتایا ہے کہ صالح نے ڈاکٹر کے مشورے پر اپنا خطاب ابھی تک ریکارڈ نہیں کروایا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل