یمن کا تنازعہ عسکری رخ اختیار کرتا ہوا
20 ستمبر 2011دارالحکومت صنعا سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کے بعض اہلکار حکومت مخالف مظاہرین سے مل چکے ہیں، جس کے بعد اُن کے اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ اس دوران بھاری اور خودکار ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات ہیں۔
تازہ اطلاعات ہیں کہ حکومت مخالفین نے فائر بندی کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا بھی کہنا ہے کہ اطراف کے نمائندے فائر بندی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکومت مخالف سابق فوجی جنرل علی محسن کے حامیوں اور حکومتی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کا آغاز اُس وقت ہوا جب حکومتی فورسز نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے نئے سلسلے کا آغاز کیا۔ جنرل محسن نے رواں سال مارچ میں 52 مظاہرین کی ہلاکت کے بعد حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔
یمن میں صدر علی عبد اللہ صالح کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری اس تحریک میں اب تشدد کا عنصر نمایاں ہونے لگا ہے۔ آٹھ ماہ کے دوران قریب چار سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں عام شہری اور سکیوٹی اہلکار دونوں شامل ہیں۔
اس سلسلے میں اتوار کو 26 اور پیر کو 28 لوگ ہلاک ہوئے۔ کئی حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر یہ معاملہ ایک عسکری تنازعے کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو پھر اس کا سیاسی حل نکالنا مزید دشوار ہو جائے گا۔
دارالحکومت صنعا میں سفارتی حلقے انتقال اقتدار کو ممکن بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ثالث جمال بن عمر اور خلیجی تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل عبد الطیف الزیانی صنعا پہنچ کر فریقین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ الزیانی کی کوشش ہے کہ انتقال اقتدار سے متعلق خلیجی تعاون کونسل کے منصوبے پر دستخطوں کو ممکن بنایا جا سکے۔
سعودی دارالحکومت ریاض میں صدر صالح اور شاہ عبد اللہ کے درمیان پیر کو ایک ملاقات ہوئی۔ سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ میں محض اتنا کہا گیا کہ صدر صالح نے مہمان نوازی پر شاہ عبد اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی