یمن کے حوثی باغیوں کے لیے ایرانی عسکری امداد میں تیزی
20 اکتوبر 2016امریکی اور ایرانی عہدیداروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گزشتہ 19 ماہ سے جاری اس تنازعے میں اب ایران کی جانب سے حوثی شیعہ باغیوں کی عسکری مدد میں اضافہ کر دیا گیا ہے، تاکہ وہ سعودی حمایت یافتہ صدر منصور ہادی اور ان کی حامی فورسز کے خلاف زیادہ مؤثر انداز سے لڑ سکیں۔
بتایا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے حوثی باغیوں کو حالیہ چند ماہ میں چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ میزائل بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ کچھ روز قبل حوثی باغیوں کی جانب سے دو امریکی جنگی بحری جہازوں پر ناکام میزائل حملے بھی کیے گئے تھے۔ حوثی باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں سے فائر کیے گئے یہ راکٹ ان بحری جہازوں کے قریب گرے تھے اور ان حملوں میں بحری جہازوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اس کے جواب میں امریکی بحیرہ نے بعد میں حوثی باغیوں کی ریڈار تنصیبات کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ ہتھیاروں کی یہ اسمگلنگ حالیہ کچھ عرصے میں عمان کے ذریعے عمل میں آئی، جہاں سے زمینی راستے سے یہ ہتھیار یمن پہنچ رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں عمان کی حکومت کو امریکی تشویش سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ہمیں ایران سے یمن پہنچنے والے ہتھیاروں کے اس بہاؤ پر تشویش ہے۔ اس سلسلے میں حوثی باغیوں سے تعلق رکھنے والوں تک یہ تشویش پہنچا دی گئی ہے، جس میں عمانی حکومت بھی شامل ہے۔‘‘
دوسری جانب عمان کی حکومت نے ہتھیاروں کی ایسی کسی بھی نقل و حرکت کو مسترد کیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں عمانی حکام کی جانب سے کوئی تفصیلی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ یمنی اور اعلیٰ علاقائی حکام کا کہنا ہے کہ عمانی حکام ہتھیاروں کی اس نقل و حرکت میں خود شامل نہیں ہیں، تاہم انہوں نے اس بہاؤ کو روکنے سے متعلق کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے عمانی وزیرخارجہ یوسف بن علوی نے کہا، ’’اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ کوئی ہتھیار ہماری سرحد عبور نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں کسی بھی بات کا جواب دینے کے لیے ہم تیار ہیں۔‘‘
روئٹرز نے ایک اعلیٰ ایرانی سفارت کار کے حوالے سے کہا ہے کہ رواں برس مئی سے حوثی باغیوں کی ’مدد میں نمایاں‘ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’جوہری ڈیل نے ایران کو اپنے حریف سعودی عرب پر ایک طرح سے برتری دے دی ہے۔ مگر اس برتری کی حفاظت بھی ضروری ہے۔‘‘