1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کے خلاف جنگ ’بابرکت اقدام‘، سعودی مفتی اعظم

مقبول ملک17 اپریل 2015

یمنی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی اتحادی فضائی حملے اپنے چوتھے ہفتے میں ہیں۔ بہت سے ملک یہ حملے روکنے اور مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن سعودی عوام کی اکثریت کی رائے میں یہ جنگ ایک ’اچھا‘ اور ’بابرکت اقدام‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/1FA6I
ایک یمنی پٹرول پمپ پر اتحادی فضائی حملے کے بعد کا منظرتصویر: Reuters/Str

سعودی دارالحکومت ریاض سے جمعہ سترہ اپریل کو موصولہ رپورٹوں میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایک سعودی روزنامے نے اگر اپنی اشاعت میں ملکی دستوں کے لیے ’بہادر مسلح افراد‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو کئی سعودی نوجوانوں نے مل کر ملکی جنگی طیاروں کے ہوا بازوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک ریموٹ کنٹرول جنگی طیارہ بھی بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مقامی موبائل فون کمپنی کی طرف سے عام صارفین کو رِنگ ٹون کے طور پر حب الوطنی کے مظہر گیت استعمال کرنے کی پیشکش بھی کی جا رہی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت ’جنگ کا زمانہ‘ ہے۔ سخت گیر انتظامی ڈھانچے والی اس عرب بادشاہت میں تقریباﹰ ہر قابل سماعت آواز اس جنگی مہم کی حامی ہے جو اس وقت اپنے چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے اور جس کے تحت سعودی عرب کی قیادت میں بین الاقوامی عسکری اتحاد کی طرف سے یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف فضائی اور بحری حملے ابھی تک جاری ہیں۔

Saudi-Arabien Großmufti Abd al-Aziz bin Abdullah Al asch-Schaich
سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیختصویر: AFP/Getty Images/H. Ammar

ریاض میں بیس اور تیس سال کے درمیان کی عمر کی ایک بے روزگار مقامی شہری سعود مبارک کے بقول سعودی حکومت نے یمنی باغیوں کے خلاف جنگ شروع کر کے ’ایک اچھا کام‘ کیا ہے۔ اس سعودی شہری کی سوچ ریاض میں ان مطلق العنان حکمرانوں اور سعودی سکیورٹی فورسز کی سوچ کے عین مطابق ہے، جنہوں نے یمنی صدر عبدربہ منصور ہادی کی جائز حکومت کی حمایت کرتے ہوئے حوثی باغیوں کی مسلسل پیش قدمی کو روکنے کے لیے ان حملوں کا آغاز کیا تھا۔ سعود مبارک ایک سابقہ سکیورٹی گارڈ ہے، جس کا کہنا ہے، ’’اس جنگ پر ہم سب خوش ہیں۔‘‘

مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ میں مذہبی پولیس کے سابق سربراہ شیخ احمد الغامدی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ’نوّے فیصد سے زائد لوگ یمن میں اتحادی عسکری کارروائیوں کی حمایت‘ کرتے ہیں۔ ریاض میں سعودی فوج کی اعلٰی قیادت نے اس جنگ کو Decisive Storm یا ’فیصلہ کن طوفان‘ کا نام دیا ہے۔

احمد الغامدی کے مطابق، ’’میری رائے میں سلطنت سعودی عرب نے جو کچھ کیا، وہ سو فیصد درست ہے۔ صرف یمن اور خلیج کی دیگر ریاستوں کے لیے ہی نہیں بلکہ عربوں اور اسلام کے لیے بھی۔‘‘ شیخ احمد الغامدی وہی سعودی شخصیت ہیں، جن کی وجہ سے اس قدامت پسند ریاست میں گزشتہ برس اس لیے ایک بڑا تنازعہ شروع ہو گیا تھا کہ ان کی ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آ گئی تھی، جس میں ان کی اہلیہ نے اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔

یمنی تنازعے سے متعلق احمد الغامدی کے خیالات وہی ہیں جو سعودی حکومت کے ہیں۔ سعودی عرب کا ایران پر الزام ہے کہ وہ یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس کے برعکس تہران حکومت ایسے الزامات کی مسلسل تردید کرتی آئی ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی کوئی مدد کر رہی ہے یا انہیں کوئی ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔

یمنی باغیوں کے خلاف سعودی اتحادیوں کی اس جنگ کی سعودی عرب کی اعلٰی ترین مذہبی شخصیت کی طرف سے بھی حمایت کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے ’ فیصلہ کن طوفان‘ نامی اس جنگ کو ایک ’بابرکت اقدام‘ قرار دیا ہے۔

Jemen Huthi-Rebellen
یمن کے حوثی شیعہ باغیتصویر: picture-alliance/AP Photo

سعودی شہروں کے مختلف کاروباری مراکز، سرکاری ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ایسی رپورٹیں اور تصویریں عام ہیں، جو مثال کے طور پر کسی شہزادے یا کسی وزیر کی طرف سے کسی زخمی فوجی کی عیادت سے متعلق ہوتی ہیں یا جن میں شاہ سلمان کو ملکی فضائیہ کے کسی جنگی طیارے کو سلام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق پریس کی آزادی کے حوالے سے دنیا کے 180 ملکوں کی فہرست میں سعودی عرب کا نمبر 164واں ہے۔ سعودی عرب کے ایک مشرقی صوبے میں، جہاں ملکی شیعہ اقلیت کا ایک بڑا حصہ آباد ہے، ایک شیعہ شہری نے اے ایف پی کو بتایا، ’’سعودی عرب میں اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں ہے۔ اگر آپ اس جنگی آپریشن کے خلاف کچھ بھی کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہیں۔‘‘

اپنی شناخت خفیہ رکھنے کے خواہش مند سعودی عرب کے اس شیعہ شہری کے بقول کئی مقامی سنی باشندے بھی اس جنگ کے خلاف ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر اس جنگ کی مخالفت زیادہ نہیں ہے حالانکہ یہ ’سعودی عرب کے علاقائی اثر و رسوخ کی نہیں بلکہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ‘ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید