یمن کے متحارب فریقین تین روزہ جنگ بندی پر متفق
18 اکتوبر 2016یمن میں جنگ بندی کی سابقہ متعدد کوششوں میں ناکامی کے بعد اس حوالے سے عالمی دباؤ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اعلان امریکا اور برطانیہ، اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے یمن کے لیے تعینات امن کے سفیر اسماعیل ولد شیخ احمد نے متحارب فریقوں کو جنگ بندی پر رضامند ہونے کے مطالبے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سفیر اسماعیل ولد شیخ احمد کا کہنا ہے کہ وہ حوثی ملیشیا کے رہنماؤں اور یمنی صدر عبد ربو منصور ہادی کی حکومت کے ساتھ رابطے میں تھے۔ خصوصی مندوب کے مطابق انہیں یمن میں بر سرِپیکار تمام متحارب گروہوں کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ یمنی وقت کے مطابق بدھ کی رات گیارہ بج کر انسٹھ منٹ پر جنگ بندی کا آغاز کیا جائے گا۔
یہ جنگ بندی ابتدائی طور پر بہتر گھنٹے کے لیے ہو گی جس کی تجدید کی جا سکے گی۔ یمن کے وزیرِ خارجہ عبدالملک المخلفی نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ،’’ صدرمنصور ہادی نے بہتر گھنٹے کی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جس میں دوسرے فریق کی رضامندی کے بعد توسیع کی جا سکتی ہے۔‘‘
پیر سترہ اکتوبر کو سعودی عرب کی حکومت نے بھی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کے ساتھ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف عسکری اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔
بروزِ ہفتہ آٹھ اکتوبر کو یمنی دارالحکومت صنعاء میں ایک باغی رہنما کے والد کے جنازے کے لیے جمع افراد پر بمباری کے نتیجے میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سعودی اتحادیوں کی اس بمباری کی دنیا بھر مذمت کی گئی تھی۔ سعودی اتحاد کی طرف سے ابتدا میں اس فضائی حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا تاہم مغربی ممالک کی طرف سے اس حملے کی مذمت کے بعد اس کی تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اتوار نو اکتوبر کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں سعودی عرب کی طرف سے اس حملے پر شدید افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں کی طرف سے یمن میں گزشتہ برس مارچ سے جاری بمباری پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں اب تک قریب چھ ہزار نو سو افراد ہلاک جبکہ تین ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔