1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی تنازعے سے دور رہا جائے، پاکستانی ممبران پارلیمان

عاطف بلوچ8 اپریل 2015

پاکستان کے کئی ارکان پارلیمان نے یمن کے تنازعے میں سعودی اتحاد کا حصہ بننے کی مخالفت کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یمن کی لڑائی پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1F43g
تصویر: picture-alliance/dpa

ملکی پارلیمان کے ایک مشترکہ اجلاس کے دوران آج بروز بدھ پاکستانی قانون ساز یمن میں ممکنہ پاکستانی مداخلت کے حوالے سے اپنی بحث کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب کی سلامتی اور خود مختاری پر اسلام آباد حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی لیکن کئی اراکین پارلیمان نے زور دیا ہے کہ یمن کے تنازعے سے سعودی عرب کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف بھی آج پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، جو پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقات میں متوقع طور پر زور دیں گے کہ پاکستانی فوج یمن کے تنازعے کا حصہ نہ بنے۔ خلیجی ریاستیں الزام عائد کرتی ہیں کہ ایرانی حکومت یمن میں فعال حوثی باغیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ تاہم تہران حکومت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں رد کرتی ہے۔

Pakistan Parlament in Islamabad
پاکستانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پیر کے دن شروع ہوا تھاتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

’یہ ہماری جنگ نہیں‘

اسلام آباد میں ملکی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آج اپوزیشن سیاستدان شیریں مزاری نے کہا، ’’یمن کی جنگ ہماری جنگ نہیں ہے۔ حکومت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ یمن میں فوج نہ بھیجے۔‘‘ پاکستان تحریک انصاف کی اس خاتون رہنما نے مزید کہا، ’’بطور مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم مسلمانوں کے مقدس مقامات کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت کریں لیکن ابھی تک اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘

اپوزیشن ہی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طاہر حسین مشہدی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’جارحیت‘ سعودی عرب دکھا رہا ہے جبکہ حقیقی طور پر یمنی متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف کی دلالت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اب جارحیت دکھانے والے ایک اور خود مختار ملک کو کہہ رہے ہیں کہ وہ سعودی عرب کو فوجی مدد فراہم کرے۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی ممالک نے گزشتہ ماہ یمن میں فعال ایران نواز شیعہ باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی شروع کی تھی۔ یہ باغی صدر عبدربہ منصور ہادی کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ دوسری طرف یمن کے ہمسایہ ملک سعودی عرب کو اندیشہ ہے کہ یمن کا بحران علاقائی سطح پر پھیلتا ہوا، سعودی عرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے سنی اتحادی ملک پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے طیارے، بحری جہاز اور فوجی دستے بھی مہیا کرے۔

اس عسکری اتحاد کا حصہ بننے یا نہ بننے سے متعلق بحث کے لیے پاکستانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پیر کے دن شروع ہوا تھا۔ اب تک تین دنوں کی اس بحث میں تمام ممبران ہی اس مہم میں شریک ہونے کی حمایت کرنے سے کترا رہے ہیں۔ پاکستانی ممبران پارلیمان کو خدشہ ہے کہ یمن کا تنازعہ سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک ’پراکسی وار‘ کی شکل اختیار کر سکتا ہے، جو پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔