1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی جنگ میں اب تک دو لاکھ تینتیس ہزار ہلاکتیں، اقوام متحدہ

2 دسمبر 2020

عرب دنیا کے انتہائی پسماندہ اور غریب ترین ملک یمن کی جنگ میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران دو لاکھ تینتیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ لاکھوں انسان اس جنگ یا اس کے اثرات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/3m81S
تصویر: Reuters/K. Abdullah

نیو یارک میں عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امداد سے متعلقہ امور کے رابطہ دفتر (OCHA) کی طرف سے بتایا گیا کہ 2015ء میں شروع ہونے والا یمن کا جنگی تنازعہ دنیا کا بدترین انسانی بحران بن چکا ہے۔

دریں اثنا یہ جنگ مزید کثیر الجہتی ہو کر اب اتنی پھیل چکی ہے کہ اس تنازعے کے واضح طور پر قابل شناخت دھڑوں اور محاذوں کی تعداد اب 47 ہو چکی ہے۔ یہ امر یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ تنازعہ کتنا طویل، ہلاکت خیز اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔

جنگ کے براہ راست اور بالواسطہ نتائج

اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے مطابق پانچ سال قبل شروع ہونے والی یمن کی جنگ کے نتیجے میں تقریباﹰ ایک لاکھ 31 ہزار انسان تو صرف بھوک، بیماریوں، غربت اور دیگر جنگی اثرات کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ رواں سال کے صرف پہلے نو ماہ کے دوران اس ملک میں کئی طرح کی جنگی کارروائیوں میں مزید تقریباﹰ 1500 عام شہری بھی مارے گئے۔

یمن میں سعودی قیادت والے اتحاد کی طرف سے جنگی جرائم کا ارتکاب

Jemen Konflikt l Huthi-Rebellen in Sanaa
تصویر: picture alliance/dpa/AP/H. Mohammed

یوں عرب دنیا کے اس پہلے سے ہی غریب ترین اور جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکے ملک میں اب تک جنگ کے نتیجے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر دو لاکھ 33 ہزار انسانوں کی جان جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کی عالمی وبا، شدید بارشوں، پٹرول کی قلت، اور ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے بھی اس ملک اور اس کی معیشت کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ رواں سال اس عرب ریاست کے لیے غیر معمولی حد تک تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

'ناقابل معافی جرم‘

یمن کی کئی سالہ جنگ اس ملک کے عوام کے لیے کتنی ہولناک ثابت ہوئی ہے، اس کا اندازہ حال ہی میں تعز میں بھی لگایا جا سکتا تھا۔ اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے یمن کے لیے نگران سربراہ الطاف موسانی نے تعز میں جس رہائشی علاقے کا حالیہ دورہ کیا، اس کے بعد انہوں نے وہاں عام شہریوں کے گھروں پر توپ خانوں سے کی جانے والے گولہ باری کو بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا نام دیا۔

کیا یمن میں جنگ تیل کے آخری قطرے تک جاری رہے گی؟

الطاف موسانی کے مطابق، ''ایسے بے حس اور لایعنی حملے، جن کے نتیجے میں بہت سے بچے اور خواتین بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، قابل مذمت بھی ہیں اور ناقابل معافی بھی۔‘‘ اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران یمن میں تعز اور الحدیدہ کے علاقوں میں جو جنگی حملے کیے گئے، ان میں کم از کم 11 بچے بھی مارے گئے جبکہ شہری ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ تھی۔

Jemen Kind mit Waffe
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed

امدادی رقوم کی عدم فراہمی

OCHA کے مطابق یمن میں حالات اتنے خراب ہیں کہ وہاں انسانی بنیادوں پر فوری امداد کے حق دار مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد عنقریب ہی مزید بڑھ کر 24.3 ملین ہو جائے گی۔ ان تقریباﹰ ڈھائی کروڑ انسانوں کی مدد کے لیے عالمی ادارے نے بین الاقوامی برادری سے 3.4 بلین ڈالر کی امدادی رقوم کی درخواست کی تھی۔

یمن: حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان قیدیوں کی رہائی پر اتفاق

لیکن ہوا یہ کہ اب تک ان رقوم کے محض ایک بہت ہی چھوٹے سے حصے کی فراہمی کے وعدے کیے گئے ہیں جبکہ عملاﹰ مہیا کردہ رقوم کی مالیت تو ان مالیاتی وعدوں کا بھی صرف چند فیصد ہی بنتی ہے۔

اس عمل میں یہ بات بھی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے کہ اس جنگی کے مسلح فریق اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں یا سرے سے امداد کی فراہمی کی اجازت ہی نہیں دیتے۔

یمن میں لڑی جانے والی دوسروں کی جنگ

یمن کی جنگ میں بظاہر دو بڑے فریق ہیں۔ ایک تو وہ حکومت جو پانچ سال پہلے تک اقتدار میں تھی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تھی اور دوسرا فریق وہ حوثی شیعہ باغی جنہوں نے حکومت کے ‌خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔

یمن: امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں مہلک نتائج کی حامل ہونگی

سعودی عرب یمنی حکومت کا حلیف تھا اور ہے اور اسی لیے اس نے 2015ء میں ہی حوثی باغیوں کے خلاف اپنی قیادت میں ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد قائم کر لیا تھا۔ دوسری طرف ایران ہے، جو حوثی باغیوں کا حامی ہے۔ اس طرح یمن کی جنگ ایک ایسا کثیر الفریقی تنازعہ بھی ہے، جو 'دوسروں کی جنگ ہے لیکن یمن میں لڑی جا رہی ہے‘۔

م م / ا ا (ای پی ڈی)