جنگ زدہ یمن: نصف سے زائد آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا
8 دسمبر 2018سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے ہفتہ آٹھ دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یمن میں، جو پہلے ہی عرب دنیا کا غریب ترین اور پسماندہ ترین ملک تھا، طویل عرصے سے جاری جنگ پہلے ہی ہزارہا انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکی ہے جبکہ کئی لاکھ شہری بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اس جنگ اور جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ملکی معیشت کی شدید حد تک بحرانی صورت حال کے باعث قریب 16 ملین یمنی باشندوں کو اشیائے خوراک کی دستیابی کے حوالے سے انتہائی نوعیت کے عدم تحفظ کا سامنا بھی ہے۔ یہ تعداد یمن کی مجموعی آبادی کا 53 فیصد بنتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ امر اپنی جگہ بہت تشویشناک ہے کہ اگر ان ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یمنی شہریوں کے لیے خوراک کی دستیابی کو یقینی نہ بنایا گیا، تو اس جنگ زدہ ملک کے وسیع تر علاقوں میں شدید نوعیت کے قحط سے بچنا تقریباﹰ ناممکن ہو جائے گا۔
دو برسوں میں پہلی بار امن مذاکرات
روئٹرز کے مطابق ایک مفصل جائزے کے نتائج پر مشتمل یہ رپورٹ آج ہفتے کے روز ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی، جب اقوام متحدہ کی کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ دو برسوں میں پہلی بار یمنی جنگ کے متحارب فریق مذاکرات کی میز پر جمع ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات کی اہم بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کاموں میں مصروف بہت سے ادارے اور تنظیمیں یہ کہہ چکے ہیں کہ یمن کی صورت حال عرصہ ہوا دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکی ہے، جس کے خاتمے کا واحد راستہ جنگی فریقین کے مابین مذاکرات اور مکالمت کے نتیجے میں قیام امن ہی ہو سکتا ہے۔
یہ جائزہ خود یمنی حکام نے بین الاقوامی ماہرین اور انٹرنیشنل آئی پی سی سسٹم کی مدد سے مکمل کیا۔ اس جائزے کے نتائج کے مطابق یمن میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہریوں کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے جس شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے، اس کی وجہ صرف جنگ ہی نہیں بلکہ وہ مہنگائی بھی ہے، جس کا سبب جنگ اور ملک کی تباہ شدہ معیشت بنے ہیں۔
بحران کئی متنوع عوامل کا نتیجہ
جنگی تباہ کاریوں اور اقتصادی بد حالی کے علاوہ یمن کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو مالی وسائل کی عدم دستیابی اور بے روزگاری کی بہت اونچی شرح کا سامنا بھی ہے۔ ان عوامل کے باعث عام شہریوں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ اپنے لیے وہ کمیاب اشیائے خوراک خرید سکیں، جن کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔
سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت قریب 16 ملین یمنی شہریوں کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے جن حالات کا سامنا ہے، انہیں ’بحران‘ سے لے کر ’ایمرجنسی‘ اور ’تباہ کن صورت حال‘ جیسے تین مختلف خانوں میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اگر فوری تدارک نہ کیا گیا، تو ان متاثرہ شہریوں کی تعداد بڑھ کر 20 ملین سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یمن کے دو کروڑ سے زائد یا 67 فیصد باشندوں کو ’بحرانی سے لے کر تباہ کن حد تک‘ بھوک کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
کل جماعتی عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ
یمنی تنازعے کے حل کی کوششوں کے دوران سویڈن میں ہونے والے مذاکرات میں یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندے محمد عبدالسلام نے آج ہفتہ آٹھ دسمبر کے روز مطالبہ کر دیا کہ اس عرب ریاست میں ایک ایسی عبوری قومی حکومت قائم کی جانا چاہے، جس میں تمام ’سیاسی جماعتوں‘ کو نمائندگی حاصل ہو۔
حوثی باغیوں کے مذاکراتی نمائندے نے یہ بات سویڈن میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان مذاکرات کے موقع پر کہی جن میں یمن کی اس بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے نمائندے بھی شریک ہیں، جسے سعودی عرب کی سیاسی اور عسکری حمایت بھی حاصل ہے۔
محمد عبدالسلام نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ یمنی بندرگاہی شہر الحدیدہ کو جنگی فریقین کے مابین قبضے کی کشمکش کا مرکز بنائے رکھنے کے بجائے ایک ’غیر جانبدار علاقہ‘ قرار دے دیا جائے۔
م م / ع ح / روئٹرز