یمنی صدر پر اقتدار کی منتقلی کے لیے امریکی دباؤ
7 جون 2011یمن میں گزشتہ چار ماہ سے جاری خونریز ہنگاموں کے دوران صالح اپنے صدارتی محل پر ہونے والے ایک حملے میں زخمی ہو گئے تھے، جس کے بعد انہیں ہفتے کے روز علاج کی غرض سے سعودی عرب پہنچا دیا گیا تھا۔
اگرچہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ دہشت گرد گروپ القاعدہ یمن میں جاری بد امنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنی موجودگی کو مزید مستحکم بنا سکتا ہے تاہم پیر کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا تھا:’’ہمارے خیال میں اقتدار کی فوری منتقلی یمنی عوام کے بھی مفاد میں ہو گی اور اس سے یمن کی واضح طور پر غیر مستحکم صورتِ حال کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی واشنگٹن میں اپنے فرانسیسی ہم منصب الاں ژوپے کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صالح کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیے تاہم فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک جائزے کے مطابق اِس موقع پر کلنٹن نے واضح طور پر صالح کو حکومت چھوڑنے کا حکم دینے سے گریز کیا۔
کلنٹن نے مزید کہا:’’یمن میں بدستور ایک سویلین حکومت برسرِ اقتدار ہے۔ نائب صدر قائم مقام صدر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔‘‘ کلنٹن نے بتایا کہ صنعاء میں امریکی سفارت خانہ حالات کا درست اندازہ لگانے کے لیے یمنی حکام کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کر رہا ہے۔ کلنٹن نے کہا:’’ظاہر ہے، مَیں اِس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتی کہ صدر صالح کیا کچھ کرنے یا کہنے جا رہے ہیں لیکن ہم دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے۔ ہم اقتدار کی پُر امن اور باقاعدہ منتقلی کے لیے کہہ رہے ہیں، جس میں تشدد نہ ہو اور جو یمن کے اپنے آئین کے مطابق ہو۔‘‘
واشنگٹن حکومت خلیجی تعاون کونسل کے اُس مصالحتی منصوبے کی تائید و حمایت کر رہی ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ صدر صالح تیس روز کے اندر اندر اقتدار ایک عبوری حکومت کو سونپ دیں گے اور بدلے میں اُنہیں کسی بھی طرح کی تادیبی کارروائی سے تحفظ کی ضمانت دی جائے گی۔
اُدھر سعودی دارالحکومت ریاض کے ایک ہسپتال میں زیر علاج 69 سالہ علی عبد اللہ صالح کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ یمنی صدر آئندہ چند روز کے اندر اندر واپس دارالحکومت صنعاء جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 33 سال سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے صالح کے ان عزائم کا مطلب یہ ہو گا کہ یمن میں اُن کے طویل دورِ اقتدار کے خلاف ہنگاموں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ