یو این ایچ سی آر کے سربراہ کی پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات
9 جولائی 2024پاکستان طویل عرصے سے ایک اندازے کے مطابق 1.7 ملین افغانوں کی میزبانی کرتا رہا ہے، جن میں سے زیادہ تر 1979- 1989 کے سوویت قبضے کے دوران افغانستان سے نکل کر پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
2021 میں افغانستان مییں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پانچ لاکھ سے زائد افراد افغانستان چھوڑ گئے تھے، جن میں سے ہزاروں امریکہ اور دیگر ممالک میں جانے کے لیے پاکستان میں انتظار کرتے رہے تھے۔ گزشتہ برس نومبر میں بڑے پیمانے پر پابندیوں کے آغاز کے بعد سے، ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ افغان وطن واپس جا چکے ہیں۔
پاکستان افغان مہاجرین کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کرے، طالبان
پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی اتوار سات جولائی کو پاکستان پہنچے تھے، جس کے بعد انہوں نے افغان مہاجرین سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا: ''میں نے افغان پناہ گزینوں کے ساتھ وقت گزارا، جن کی وسائل ان کی طاقت اور پاکستان کی طویل مہمان نوازی کا ثبوت ہیں۔‘‘ گرینڈی نے مزید کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ''اس بات پر تبادلہ خیال کرنا ہے کہ ہم بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے درمیان دونوں کی بہترین مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ کو بتایا کہ متعدد چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ''مثالی احترام اور وقار‘‘ کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ نواز شریف نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ ''اتنی بڑی پناہ گزین آبادی کی میزبانی کرتے ہوئے پاکستان کے کندھوں پر پڑنے والے بوجھ کو تسلیم کرے اور اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم نے افغان پناہ گزینوں کو ''محفوظ اور باوقار‘‘ طریقے سے وطن واپس بھیجنے کے لیے یو این ایچ سی آر سے مدد کی بھی درخواست کی۔
گرینڈی نے آج منگل کے روز افغانستان کے لیے ملک کے خصوصی نمائندے آصف درانی سے بھی ملاقات کی۔ درانی نے ایکس پر لکھا کہ دونوں فریقوں نے ''افغان پناہ گزینوں کے مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا، جس میں ان کی واپسی بھی شامل ہے۔‘‘
اس سے قبل پاکستان نے کہا تھا کہ کریک ڈاؤن میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں، چاہے وہ کسی بھی قومیت کے ہوں۔
اقوام متحدہ کے ادارے پاکستان سے افغانوں کی جبری بے دخلی کی مذمت کرتے رہے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس سے خاندانوں کی علیحدگی اور کم عمر بچوں کی ملک بدری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔
کریک ڈاؤن کے بعد سے افغانستان میں طالبان کی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے وطن واپس آنے والے شہریوں سے نمٹنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے۔ ساتھ ہی اسلام آباد کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
پاکستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، جن میں سے زیادہ تر کا الزام پاکستانی طالبان پر لگایا جاتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان سے الگ ایک عسکریت پسند گروپ ہے لیکن افغان کا قریبی اتحادی ہے۔
ا ب ا/ا ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)