یورو پول اور یورپ کی منظم جرائم کے خلاف جنگ
11 فروری 2010یورپی ملکوں میں مجموعی طور پر جرائم کی شرح بہت سے ایشیائی اور افریقی ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ عام شہریوں کی اکثریت قانون کا احترام کرتی ہے، اس حقیقت کا قائل ہونے کے سبب کہ قوانین شہریوں کی حفاظت اور سہولت کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ بدعنوانی کے مقابلتا کم رجحان کے باعث پولیس کے شعبے میں بھی کرپشن بہت کم پائی جاتی ہے، اور ریاستی نظام کے ایک اہم حصے کے طور پر مختلف یورپی ملکوں میں محکمہ پولیس کے اہلکاروں کو اگر بہت سہولیات بھی ملتی ہیں، تو ساتھ ہی انہیں قانون کے محافظین کے طور پر اپنے ہر عمل کے لئے جواب دہ بھی ہونا پڑتا ہے۔
اسی بنا پر یورپی ملکوں میں عام شہری پولیس اہلکاروں پر بالعموم بہت زیادہ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ابھی کچھ عرصہ قبل ہی یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں ایک بہت بڑے عوامی جائزے کے یہ نتائج تھے کہ ایک عام جرمن شہری اپنے ارد گرد کے ماحول میں جن دو پیشہ ور شخصیات پر سب سے زیادہ اعتماد کرتا ہے، ان میں سے ایک اس کا ڈاکٹر ہوتا ہے اور دوسرا پولیس اہلکار۔ اس کے باوجود یورپی ملکوں میں داخلی اور بین الاقوامی سطح پر پولیس کے محکموں میں اصلاحات اور مسلسل بہتر تعاون کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔ یہی بین الاقوامی تعاون سولہ برس قبل یورپی پولیس ادارے یوروپول کے قیام کی وجہ بھی بنا تھا۔
یوروپول اور اس کے مقاصد
یورو پول کی بنیاد 1994ء میں سولہ فروری کے روز ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں رکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد منظم جرائم کے خلاف قانون کی جنگ کو یورپی سطح پر منظم کرنا تھا۔ آج یوروپول ایک ایسا یورپی پولیس ادارہ ہے جس کے کل وقتی کارکنوں کی تعداد 600 کے قریب ہے، اور جن کا تعلق یورپ کے 27 مختلف ملکوں سے ہے۔ یہ ادارہ یورپی ملکوں کی قومی سرحدوں سے پار تک جرائم سے متعلقہ اعدادوشمار بھی جمع کرتا ہے اور اس بارے میں تجزیاتی رپورٹیں بھی مرتب کرتا ہے کہ یورپی ملکوں کو ریاستی اور عوامی سطح پر کس وقت، کس طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔ تاہم اس ادارے کو مجرموں کا پیچھا کرنے یا انہیں گرفتار کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
یوروپول کے نام سے لگتا ہے کہ جیسے اس ادارے کے اہلکار پولیس کے کوئی خصوصی کمانڈو ہوتے ہوں گے، یا پھر شاید یورپ میں یوروپول امریکہ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI کی طرز پر کوئی خفیہ ادارہ ہوگا۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی بات درست نہیں۔ اس لئے کہ یوروپول یورپی یونین کے رکن 27 ملکوں کے مابین جرائم سے متعلقہ معلومات کے تبادلے کا ایک ایسا نظام ہے، جو رکن ملکوں میں پولیس کے قومی محکموں کی کارکردگی کو مربوط بناتا ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے یوروپول کے سابقہ ڈائریکٹر ماکس پیٹر راٹسَیل کہتے ہیں کہ یوروپول کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر یونین کے رکن ایک دو، پانچ دس یا تمام ستائیس ملکوں میں کوئی خاص طرح کی معلومات مطلوب ہوں، تو اس ادارے کے اہلکاروں کو مختلف زبانوں میں مختلف ریاستوں سے ان معلومات کے حصول کے لئے علیحدہ علیحدہ درخواست نہیں کرنا پڑتی، بلکہ یہ کام ایک ہی جگہ سے، ایک ہی وقت میں اور ایک ہی زبان میں یکدم ہو جاتا ہے۔
نجی زندگی کا احترام
یورپی یونین میں چونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس موجود معلومات اور کسی بھی شہری سے متعلقہ ذاتی کوائف کی، اس کی نجی زندگی کے احترام کی وجہ سے، بہت حفاظت بھی کی جاتی ہے، اس لئے یوروپول کے ڈیٹا بینک میں موجود بے شمار معلومات خود بخود ہی تمام ستائیس ملکوں کے پولیس اہلکاروں کو دستیاب نہیں ہو جاتیں بلکہ اس کے لئے قومی پولیس اداروں کو اپنے مرکزی دفاتر کے ذریعے یوروپول سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔
یوروپول، اس کی کارکردگی یا اختیارات سے متعلق تمام فیصلے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔ کیا یوروپول کو کبھی مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپے مارنے، ملزمان کو گرفتار کرنے اور ان سے تفتیش کا اختیار بھی دے دیا جائے گا، ایسا اگر کبھی ہوا بھی تو اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ یورپی یونین کی سطح پر سولہ سال قبل قائم کیا گیا یہ ادارہ اب منشیات کے خلاف جنگ، کالے دھن کو سفید بنانے کی کوششوں، انٹرنیٹ پر بچوں کی عریاں تصاویر اور دہشت گردی جیسے مسائل پر قابو پانے کی کاوشوں میں یورپی حکومتوں کی مدد کرنے والا ایک اہم ادارہ بن چکا ہے۔
شینگن معاہدہ
یورپی یونین کے آزاد سرحدی سمجھوتے یا شینگن کے معاہدے کے نفاذ کے بعد سے ایک طرف اگر رکن ملکوں کے شہریوں کو شینگن ممالک میں بغیر کسی نگرانی کے آمدورفت کی سہولت حاصل ہو چکی ہے، تو اسی سہولت کو بہت سے جرائم پیشہ افراد اور گروہ اپنے فائدے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی شینگن کے معاہدے میں شامل ریاستوں کے مابین جب سرحدی نگرانی کا عمل ختم ہوا تو رکن ممالک میں عام شہریوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت کے ساتھ ساتھ اشیاء کی آزادانہ نقل وحمل بھی ممکن ہو گئی۔ اس بہت بڑی پیش رفت کو جرائم پیشہ گروہوں نے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مجرموں کے ایسے گروہوں کی روک تھام کے لئے رکن ملکوں میں پولیس، کسٹمز حکام اور دیگر سیکیورٹی ادارے آپس میں ان ضابطوں کے تحت تعاون کرتے ہیں، جن کا تعین سن 1992ء میں ماسٹرشٹ اور پھر سن 1997ء میں ایمسٹرڈیم میں طے پانے والے یورپی معاہدوں میں کیا گیا تھا۔
’یوروجسٹ‘
ان سیکیورٹی اداروں کی قومی سرحدوں سے باہر تک کارکردگی کو مربوط بنانے کا کام Eurojust نامی وہ یورپی ادارہ کرتا ہے جس کا صدر دفتر ایمسٹرڈیم میں قائم ہے۔ اس یورپی محکمے کو بہت سے تفتیشی ماہرین، وکلاء اور ججوں کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ جرائم کے خلاف جنگ میں یوروجسٹ کی مدد سے سب سے اہم کام یوروپول کا وہ مرکزی دفتر انجام دیتا ہے جو سن 1999ء میں دی ہیگ میں قائم کیا گیا تھا۔ یوروپول کے بارے میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے داخلہ اور انصاف سے متعلقہ امور کے وزراء نے ماضی میں یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ اگر یونین کے رکن دو یا دو سے زیادہ ملک متاثر ہو رہے ہوں، تو شدید نوعیت کے جرائم کی ہر قسم کی روک تھام کا کام یورپی پولیس ہی کرے گی۔ اس فیصلے پر اسی سال یکم فروری سے عمل درآمد بھی ہو چکا ہے اور یوں یورپی یونین میں داخلی سلامتی کی کوششوں میں یوروپول کا کردار اب اور بھی اہم ہو گیا ہے۔
یوروپول کا اعصابی مرکز
یوروپول کا اعصابی مرکز اس ڈیٹا بینک کو کہا جاتا ہے جس کا نام یوروپول انفارمیشن سسٹم یا EIS ہے اور جس میں اب جعلی کرنسی نوٹ تیار کرنے والے مجرموں کے گروہوں کی روک تھام کے لئے ایک نئے ذیلی شعبے نے بھی تجرباتی بنیادوں پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ یورپی ملکوں میں قومی پولیس اداروں کے ماہرین اور ہمسایہ ملکوں میں ان کے ساتھی اہلکاروں کے مابین تعاون اب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ مثال کے طور پر جرمنی اور ہالینڈ کی باہمی سرحد پر مجرموں کا پیچھا کرنے کے لئے ایک باقاعدہ ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے جو ’کراس بارڈر پولیس ٹیم‘ یا GPT کہلاتی ہے۔ یہی نہیں گزشتہ برس موسم گرما میں تو یہ بھی ہوا کہ بحیرہ آڈریا کے علاقے میں کروشیا کے ساحلوں پر، جہاں ہر سال بہت بڑی تعداد میں جرمن سیاح جاتے ہیں، وہاں جرمنی کی وفاقی پولیس کے بہت سے اہلکار اپنے کروآٹ ساتھی افسروں کے ہمراہ حفاظتی گشت کرتے رہے۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ ایک ملک کے پولیس اہلکاروں کو زیادہ سے زیادہ حد تک دوسرے ملکوں کے پولیس حکام کے حالات کار سے متعارف کرایا جا سکے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ