یورپ بھی شمالی کوریائی میزائلوں کی زد میں، جرمن خفیہ ادارہ
18 مارچ 2018جرمنی کی انٹيليجنس ايجنسی بی اين ڈی کے ڈپٹی ڈائريکٹر اولے ڈيہل نے يہ بات ملکی ارکان پارلیمان کو دی گئی ایک بریفنگ میں بتائی۔ اس بارے ميں خبر جرمن اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ ميں آج شائع ہوئی ہے اور اخبار نے ميٹنگ ميں شامل افراد کے ذرائع سے يہ بات لکھی ہے۔ ڈيہل کے مطابق يہ بات يقين کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ شمالی کوريا اس صلاحيت کا حامل ہے۔ اس اخبار کی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ جرمن خفيہ ايجنسی BND جنوبی اور شمالی کوريا کے مابين مذاکرات کو مثبت پيش رفت کے طور پر ديکھتی ہے۔ فوری طور پر بی اين ڈی نے خبر پر کوئی تبصرہ نہيں کيا۔
يہ امر بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابنديوں اور عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کے باوجود پيونگ يانگ اپنا متنازعہ جوہری و ميزائل پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کم جونگ اُن کھلے عام اس بات کا اقرار کر چکے ہيں کہ وہ امريکی سرزمين تک مار کرنے والے ميزائل بنانے کی تياريوں ميں مصروف ہيں۔ پيونگ يانگ کے مطابق يہ اقدامات محض دفاعی نوعيت کے ہيں اور ان کا مقصد امريکا کے ’قبضے‘ سے بچنا ہے تاہم امريکا ايسے الزامات کو رد کرتا ہے۔
دريں اثناء پيونگ يانگ کے ايک سينئر سفارت کار اتوار اٹھارہ مارچ کو فن لينڈ کے ليے روانہ ہوچکے ہيں۔ اس دورے پر وہ امريکی و جنوبی کوريائی نمائندوں سے بات چيت کريں گے۔ ان کی ملاقات ميں شمالی کوريا کے رہنما کم جونگ ان اور امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ايک ممکنہ ملاقات پر بھی تبادلہ خيال متوقع ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی ميں جنوبی کوريا ميں منعقدہ سرمائی المپکس ميں شمالی و جنوبی کوريائی ايتھليٹس کی مل کر شرکت کے بعد سے جزيرہ نما کوريا ميں جاری کشيدگی ميں کمی آئی ہے۔
ع س / ش ح، نيوز ايجنسياں