یورپ: موسمیاتی شدت اور سیاحت
یورپ میں گرمی کی شدید لہر مسلسل جاری ہے جب کہ جنگلاتی آگ، سوکھتے دریا اور پانی کی قلت جیسے مسائل دیکھے جا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح اثرات یورپ کے سیاحتی مقامات پرخاص دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسپین
تیرین کا جنگلاتی علاقہ اتنا خشک ہے کہ ماچس کی ایک تیلی اسے جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ اسپین میں بدترین جنگلاتی آگ دیکھی جا رہی ہے۔ ویلینسیا، ایلیکانتے اور مُرسیا میں مختلف ٹیمیں آگ کے خلاف مسلسل فعال ہیں۔ ہزاروں رہائشیوں اور سیاحوں کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا ہے۔ سیاحتی علاقے اندلس اور کاتالونیا اس سے شدید متاثرہ خطے ہیں۔
فرانس
فرانس میں بھی خشک سالی نے تاریخی شکل اختیار کر لی ہے۔ ملک کے کئی مقامات میں جنگلاتی آگ بھڑکی ہوئی ہے، جس میں بحراوقیانوس کے قریب واقع مشہور سیاحتی ساحل گیروند کا علاقہ بھی شامل ہے۔ اس علاقے سے ہزاروں سیاحوں کو نکالا جا چکا ہے، جب کہ قریبی ہائی ویز بند ہیں۔ ڈیون دے پیلا نامی ایک ہزار سال پرانا جنگل اس آگ کی نذر ہو چکا ہے۔
پرتگال
الگاروے ایک مشہور سیاحتی علاقہ ہے، جہاں آنے والے سیاحوں کو ہوٹل پولز اور لاتعداد شاورز کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ پرتگال کی معیشت سیاحت پر انحصار کرتی ہے۔ مشکل معاملہ یہ ہے کہ شدید خشک سالی نے اس ملک میں پانی کی قلت پیدا کر دی ہے۔ الگاروے کے علاقے کے ہوٹلوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پانی کا استعمال کم کریں۔ تاہم یہ ہو گا کیسے، کوئی نہیں جانتا۔
آسٹریا
ویانا جہاں درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ تک دیکھا گیا، وہاں سیاح پانی کی پھوار کے ذریعے گرمی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ویانا یورپ کے سب سے سرسبز شہروں میں سے ایک ہے، تاہم اسے ماحولیاتی تبدیلیوں نے بدترین انداز سے نشانہ بنایا ہے۔ اسی تناظر میں اس شہر نے گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے پانی کے شاور جگہ جگہ نصب کر کے ’کولنگ زونز‘، پینے کے پانی کے فوارے بنائے ہیں جب کہ مزید درخت لگائے جا رہے ہیں۔
یونان
یونان میں شدید گرمی کا اثر جابہ جا ہے۔ دارالحکومت ایتھنز کے نواح میں، کریٹے اور لیسبوس جیسے جزائر پر بھی۔ لیسبوس جزیرے پر پھیلی جنگلاتی آگ جولائی کے آخر تک پھیلتے ہوئے وتیریا کے سیاحتی مقام تک پہنچ گئی تھی، جہاں سیاحوں کو پناہ ڈھونڈنا پڑی جب کہ کوسٹ گارڈز کی مدد سے ان افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا۔ یونان میں اب بھی کئی مقامات پر جنگلاتی آگ لگی ہوئی ہے۔
کروشیا
سیاح جنہوں نے ڈوبرووینِک کا انتخاب کیا، انہوں نے یہاں 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت دیکھا۔ یورپ میں گرمی کی چھٹیوں کے موسم میں سیاحتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں سیاحوں کی خوش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ سیاح گرمی پر توجہ نہ دیں اور سیاحت کا لطف لیں۔
نیدرلینڈز
ایمسٹرڈیم میں لوگ گرمی سے بچنے کے لیے سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔ اسی طرح دریائے ایمسٹل کے کنارے بھی لوگوں کا غیرعمومی رش ہے۔ لیکن نیدرلینڈز میں خشک سالی دریاؤں کے لیے بھی مسئلہ بن رہی ہے۔ پانی کی سطح ہر جگہ گر رہی ہے اور نمکین پانی مختلف آبی راستوں میں داخل ہو رہا ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ سیلاب سے بچانے والا نظام بھی شدید گرمی اور خشکی کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔
اٹلی
شدید گرمی مناظر تبدیل کر رہی ہے۔ اٹلی کے شمال میں سیاحوں کی ایک اہم منزل یعنی جھیل گاردا میں پانی پندرہ برسوں کے کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جزیرہ نما سیمیونے میں چٹانیں دیکھی جا رہی ہے اور سیاح اب ان ساحلوں کو پہچان تک نہیں پا رہے ہیں۔ سیاحتی شعبے کے حکام کا تاہم اصرار ہے کہ اس جھیل پر چھٹیاں اب بھی منائی جا سکتی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ
موسم سرما میں یہاں پڑنے والی برف کے آس پاس حفاظتی شیٹس نصب کی گئی ہیں۔ تاہم دو ہزار برسوں میں پہلی بار تین ہزار میٹر اونچا گلیشیئر کول ڈے زنفلیورں کا ایک حصہ برف سے مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق ستمبر کے آخر تک یہاں فقط چٹانیں دکھائی دیں گی۔ ماہرین کے مطابق اس مقام پر سن 2012 میں پندرہ میٹر موٹی برف کی تہہ تھی۔
برطانیہ
کیا یہ لندن ہے؟ یہاں سبز کی بجائے پارکس خشک اور پیلے ہیں۔ عام حالات میں ان پارکس میں ہجوم ہوتا تھا، مگر گرمی شدید ہے اور اب یہ ویران ہیں۔ جولائی میں لندن میں چالیس درجے سیٹی گریڈ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں برطانیہ میں موسمی ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہیں۔ اگست میں بھی برطانیہ میں کئی مقامات پر بارشیں نہ ہونے سے متاثر ہوئے ہیں۔
جرمنی
بالائے وسطی وادیء رائن، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کے تاریخی ورثے میں شامل ہے اور سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ تاہم دریائے رائن میں یہاں بعض مقامات پر پانی کی سطح چالیس سینٹی میٹر تک گر چکی ہے۔ ایسی صورت میں سامان بردار کشتیاں کم سامان کے ساتھ ہی دریائے رائن کا استعمال کر سکتی ہیں جب کہ فیری سروس معطل کی جا چکی ہے۔