1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس میں کیوں؟

24 نومبر 2019

یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس میں پیش آتے ہیں۔ حکومت عورتوں کے بہتر تحفظ کے لیے نئی قانون سازی پر کام کر رہی ہے مگر خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق صرف یہ نیا قانون بھی کافی ثابت نہیں ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3Tcog
مارچ دو ہزار سترہ میں اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہونے والی اٹھائیس سالہ فرانسیسی خاتون ہیلین گوٹیئرتصویر: Mael Fuentes

آنیک گوٹیئر کو لگتا ہے کہ جیسے انہیں عمر بھر کے لیے سزا دے دی گئی ہو۔ ان کی 28 سالہ بیٹی ہیلین کو مارچ 2017ء میں شمال مشرقی فرانسیسی شہر رائم میں اس کے سابق بوائے فرینڈ نے قتل کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ''میری بیٹی نے اپنے بوائے فرینڈ سے چھ ہفتے قبل علیحدگی اختیار کر لی تھی مگر وہ اسے مسلسل ہراساں کرتا رہتا تھا۔ ایک صبح وہ اس اصطبل کے باہر میری بیٹی کا انتظار کر رہا تھا، جہاں وہ کام کرتی تھی۔ اس نے ہیلین سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے۔ ہیلین نے انکار کر دیا، تو اس نے چاقو سے اس کے دل اور پھیپھڑوں پر وار کر کے اسے وہیں قتل کر دیا۔‘‘ آنیک گوٹیئر کہتی ہیں کہ وہ اس بات پر ابھی تک یقین نہیں کر سکتیں کہ وہ اپنی بیٹی سے اب دوبارہ کبھی نہیں مل پائیں گی۔

Frankreich Femizid l Annick Gauthier, Mutter von Hélène Gauthier
ہیلین گوٹیئر کی والدہ آنیک گوٹیئرتصویر: Mael Fuentes

'قصور نظام کا بھی ہے‘

ستاون سالہ گوٹیئر کہتی ہیں کہ جو کچھ ان کی بیٹی کے ساتھ ہوا، اس کا ذمے دار صرف مقتولہ کا سابق بوائے فرینڈ اور قاتل ہی نہیں بلکہ اس کی ایک وجہ فرانسیسی پولیس بھی ہے۔ ''جب اس نے میری بیٹی کو قتل کیا، اس سے صرف دو ہفتے قبل وہ ایک بار کھڑکی کا شیشہ توڑ کر اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھا اور سمجھتا تھا کہ ہیلین نے کسی دوسرے نوجوان سے ملنا شروع کر دیا تھا۔‘‘

آنیک گوٹیئر کے مطابق ان کی بیٹی نے پولیس کو اس واقعے کی اطلاع دی تھی مگر وہ مقامی پولیس اسٹیشن سے روتی ہوئی واپس آئی تھی۔ تب اس نے اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ پولیس کے مطابق، ''یہ تو عام سا واقعہ تھا۔ پولیس نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا تھا کہ بعد میں قتل جیسے حتمی اقدام پر اتر آنے والا یہ شخص کوئی خطرناک آدمی تھا۔‘‘

ہیلین کی والدہ کے مطابق بعد میں ان کی بیٹی نے اپنے اس سابق بوائے فرینڈ کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا تھا۔ آنیک گوٹیئر کہتی ہیں، ''میں آج کے فرانسیسی معاشرے سے سخت نالاں ہوں، جو ایک پدر شاہی معاشرہ ہے، جہاں بات اگر عورتوں کے تحفظ کی ہو، تو مرد مردوں کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔‘‘

Frankreich Femizid - Organisatorin von #Noustoutes, Camille Caratti
پیرس میں تحفظ حقوق نسواں کی فرانسیسی تنظیم ’ہم سب‘ کا ایک احتجاجی مظاہرہتصویر: DW/L. Louis

فرانس میں سالانہ 130 سے زائد عورتوں کا قتل

ہیلین کے قتل کا واقعہ فرانس میں ہر سال رونما ہونے والے ایسے جرائم میں سے صرف ایک واقعہ ہے۔ فرانس میں عورتوں کے قتل کے واقعات یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیش آتے ہیں۔ سال رواں کے دوران بھی 130 سے زائد فرانسیسی عورتیں اپنے شوہروں، دوستوں یا سابق بوائے فرینڈز کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں۔

فرانسیسی خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'نُوں تُو‘ (NousToutes) یا 'ہم سب‘ گزشتہ چند برسوں سے ملک میں ایسے ہر قتل کا سوشل میڈیا پر ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہ تنظیم فرانس میں عورتوں کے قتل کے خلاف اکثر احتجاجی مظاہرے بھی کرتی رہتی ہے۔

ایسے ہی ایک مظاہرے میں حال ہی میں ہفتے کے روز پیرس کے مشرقی حصے میں 'پلاس دے لا باستِیل‘ کے مقام پر اس تنظیم کی درجن بھر خواتین زمین پر اس طرح لیٹی رہیں، کہ جیسے انہیں قتل کر دیا گیا تھا اور کوئی بھی اس طرف دھیان نہیں دے رہا تھا۔  اس دوران لاؤڈ اسپیکروں پر خواتین ایسے نعرے بھی لگا رہی تھیں: ''میں نے اپنے بوائے فرینڈ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور اب وہ مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔‘‘

خواتین کے تحفظ کے لیے نیا قانون

فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کی سنجیدگی سے پوری طرح آگاہ ہے اور خواتین کے بہتر تحفظ کے لیے نئی قانون سازی کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس آئندہ قانون کے تحت پرتشدد مردوں کو ایسے الیکٹرانک کڑے پہنائے جائیں گے، جن کی مدد سے انہیں ان خواتین سے دور رکھا جا سکے گا، جن کو ایسے مردوں اور ممکنہ مجرموں سے خطرہ ہو۔

اس کے علاوہ موجودہ حکومت کا ایک ارادہ یہ بھی ہے کہ فرانسیسی عدالتیں آئندہ ایسے پرتشدد مردوں کو چھ روز تک جیل میں رکھنے کے احکامات بھی جاری کر سکیں گی اور ساتھ ہی متاثرہ خواتین کے لیے اور زیادہ 'محفوظ رہائش گاہیں‘ بھی قائم کی جائیں گی۔

فیصلہ کن اقدام جس کا 'کوئی ذکر ہی نہیں‘

آنیک گوٹیئر کہتی ہیں کہ پیرس حکومت اس سلسلے میں جو نئی قانون سازی کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، اسے ایک اچھا آغاز تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن صرف یہ قانون اکیلا ہی کافی نہیں ہو گا۔

ان کا کہنا ہے، ''پرتشدد مردوں کو کلائی پر پہنائے جانے والے الیکٹرانک آلات وہ ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں، جن سے ایسے مردوں کو خطرات کا شکار خواتین سے دور رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے اقدامات اسپین میں بھی مددگار ثابت ہوئے ہیں اور فرانس میں بھی ان سے فائدہ ہی ہو گا۔‘‘

تاہم گوٹیئر کہتی ہیں، ''ایک بہت اہم پہلو جس کا اب تک کسی نے ذکر نہیں کیا، وہ یہ ہے کہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس اہلکاروں کی نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، تاکہ انہیں پوری طرح احساس ہو سکے کہ جب ایسی کوئی خاتون اپنی شکایت لے کر کسی پولیس اسٹیشن جاتی ہے، تو وہ خود کو کس حد تک خطرے میں محسوس کر رہی ہوتی ہے۔‘‘

ان کے بقول خاص طور پر مرد پولیس اہلکاروں کو ایسے رویے اپنانا ہوں گے کہ جب کوئی عورت کسی مرد کے خلاف شکایت لے کر تھانے جاتی ہے، تو مردوں کو مردوں سے ہمدردی کرنے کے بجائے کسی بھی متاثرہ عورت کی شکایت بالکل ویسے ہی سننا چاہیے، جیسے کہ قانون کا تقاضا ہے۔ ''ایسا ہو گیا، تو بہت سی عورتوں کی جانیں بچائی جا سکیں گی اور ان کے خاندانوں کو شدید دکھ اور لامتناہی اذیت سے بچایا جا سکے گا۔‘‘

لیزا لوئیس، پیرس (م م / ع ح)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں