1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں دہشت گردی کا رخ تبدیل ہوتا ہوا

امتیاز احمد30 مارچ 2016

برسلز اور پیرس حملوں کے باوجود ستر کی دہائی کے مقابلے میں یورپ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں کمی آئی ہے۔ دوسری جانب خوف کی فضاء پہلے کی نسبت اب زیادہ ہے محسوس کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IM70
Belgien Nach Terroranschlägen in Brüssel - Flughafen Zaventem
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Geert Vanden Wijngaert

پیرس اور برسلز حملوں کے بعد زیادہ تر یورپی باشندوں کی نظر میں دہشت گردانہ حملے ان کی ذات کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور وہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ یورپ میں دہشت گردی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ستر کی دہائی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تعداد موجودہ برسوں سے کہیں زیادہ تھی۔ میری لینڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 1979ء میں یورپ میں ہونے والے بم دھماکوں کی تعداد آٹھ سو سے بھی زائد تھی۔

اسی طرح سن انیس سو ستر سے نوے کی دہائی کے اواخر تک سالانہ سینکڑوں حملے یورپ میں ہوتے رہے۔ ان کے نتیجے میں سالانہ ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں بھی معمول کا حصہ تھیں۔ اگر ان کا موازنہ گزشتہ برس کے حملوں اور ہلاکتوں سے کیا جائے تو تیرہ نومبر کو شارلی ایبدو اور کئی دیگر حملوں کے نتیجے میں یورپ بھر میں 147 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب یہ ہلاکتیں گزشتہ دس برسوں میں اپنی نوعیت کی واحد مثال تھی۔

Belgien Brüssel nach den Anschlägen Premierminister Geert Bourgeois
سن 1975 میں دہشت گرد صرف توجہ چاہتے تھے نہ کہ زیادہ ہلاکتیںتصویر: picture-alliance/dpa/A. Belot

پرانی اور نئی دہشت گردی

یورپ میں ستر اور اسی کی دہائی میں جو دہشت گردانہ حملے ہوئے وہ زیادہ تر آئرلینڈ کی قوم پرست تنظیم آئی آر اے، اسپین کی ای ٹی اے، اٹلی کے کمیونسٹ ریڈ بریگیڈ اور جرمنی کی انتہائی بائیں بازو کی تنظیم آر اے ایف کی طرف سے کیے گئے۔ ان کے علاوہ بھی کئی دہشت گرد تنظمیں یورپی ممالک کے لیے درد سر بنی رہیں۔ جرمنی کے شہر ایسن میں بحرانوں کی روک تھام کے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رولف ٹوپ ہوفن کہتے ہیں، ’’ اس وقت تقریباﹰ ہر ملک میں حکومتی ردعمل میں ایک دہشت گرد گروپ وجود میں آ چکا ہے۔‘‘

رولف ٹوپ ہوفن کہتے ہیں کہ یورپ میں ستر اور اسی کی دہائی میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں بنیادی طور پر سیاسی تھیں اور صرف ملکی حدود تک ہی محدود تھیں۔ اس کے برعکس داعش اور القاعدہ ایسے تنظیمیں بنیادی طور پر سیاست کو نہیں بلکہ مذہب کا غلط استعمال کر رہی ہیں اور ان کی کارروائیوں کی کوئی سرحد بھی نہیں ہے۔

نئے گروپ نئے اہداف

دہشت گردی کے حوالے سے امریکی محقق برین جینکنس کا کہنا ہے کہ سن 1975 میں دہشت گرد صرف توجہ چاہتے تھے نہ کہ زیادہ ہلاکتیں۔ پہلے دہشت گردوں کا ہدف سیاست دان یا کاروباری ادارے ہوتے تھے اور وہ ہمیشہ دوسرے فریق کو مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ سویلین ہلاکتیں اس وقت بھی تھیں لیکن یہ بنیادی ہدف نہیں تھے لیکن اب صورتحال تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

رولف ٹوپ ہوفن کے مطابق اب اہداف بنیادی طور پر تبدیل ہو گئے ہیں۔ داعش یا القاعدہ کے دہشت گرد ’باڈی کاؤنٹ‘ یعنی ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔ وہ اتنے زیادہ لوگوں کو ہلاک یا زخمی کرنا چاہتے ہیں، جتنا ممکن ہو سکے۔