یورپ میں منشیات سے 8200 اموات، امریکا میں اس سے دس گنا زیادہ
6 جون 2019یورپی ڈرگ رپورٹ برائے سن 2018 کا اجراء جمعرات چھ جون کو کیا گیا۔ اس میں یورپ بھر میں نشے کی لت میں مبتلا افراد کے حوالے سے ایک مسابقتی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس منشیات کی زیادہ مقدار کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سن 2017 کے مقابلے میں گزشتہ برس تین سو اموات زیادہ ہوئیں۔
اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خطرناک نشہ آور مادے ہیروئن کے استعمال میں کمی ریکارڈ کی گئی اور ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں گزشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں چالیس فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ بظاہر ان اعداد و شمار میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ محققین کا خیال ہے کہ منشیات کے زیادہ استعمال سے ہونے والی ہلاکتیں رپورٹ کی گئی تعداد سے اندازہﹰ بیس تا تیس فیصد زیادہ ہو سکتی ہیں کیونکہ انہیں مناسب انداز میں پولیس یا ہسپتالوں میں رجسٹر نہیں کیا جاتا۔
یورپی ڈرگ رپورٹ کے مطابق بھنگ کا استعمال یورپی باشندوں میں بہت زیادہ رواج پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کوکین کے استعمال میں بھی بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں منشیات استعمال کرنے والے اور کوکین فراہم کرنے والے ڈیلر فون ایپس کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ منشیات کی زیادہ مقدار استعمال کرنے سے یورپ میں ہونے والی تقریباً بیاسی سو ہلاکتیں کوکین یا دوسری منشیات کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ افیون کے ست سے تیار کیے جانے والے مرکب ہیروئن کو دوسری منشیات کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے سے ہوئیں۔ ایسے خطرناک نشہ آور مرکب سے ہونے والی ہلاکتیں 78 فیصد رہیں۔
رپورٹ کے ریسرچر جولیان ونسینٹ کا کہنا ہے کہ افیون سے تیار کیے جانے والے نشہ آور مرکبات کا کم مگر کنٹرولڈ استعمال، جو ڈاکٹر کی ہدایت پر ہو وہ موت کا سبب نہیں بنتا۔ اس ریسرچر نے واضح کیا کہ یہ مرکب انتہائی خطرناک نشہ آور شے ہے۔ اس کے استعمال سے امریکا میں سن 2017 کے دوران ستر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ عالمی سطح پر منشیات کے خلاف ادارے سرگرم اور فعال ہیں اور نشے کے استعمال کو کنٹرول کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر جرمنی کے حوالے سے ایک ریسرچر ہینریک یُونگ بارلے کا کہنا ہے کہ جرمنی میں منشیات فروشی اور استعمال کے خلاف چار رخی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس میں انسداد اور تدارک، تھیراپی، نقصان کو کنٹرول کرنے کی کوشش اور اثرات شامل ہیں۔ یہ پالیسی سن 1990 میں متعارف کرائی گئی تھی۔