1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ پہنچنے کی خواہش تینتیس ہزار سے زائد مہاجرین کو نگل گئی

عاطف بلوچ ٹامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
11 نومبر 2017

چار ماہ کا فارس علی ترکی کے ایک خیمے میں ٹھٹھر کر مرا، چار سالہ ساجدہ علی سمندر میں ڈوب کر جبکہ سیموئل اور اس کی ماں اسپین پہنچنے کی کوشش میں۔ یہ بچے ان ہزارہا مہاجرین میں شامل تھے، جو مہاجرت کے خوفناک سفر کی نذر ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/2nRhv
Griechenland Mazedonien Flüchtlinge bei Idomeni
تصویر: Getty Images/M. Cardy

جرمن اخبار ’ٹاگس اشپیگل‘ نے 33 ہزار دو سو ترانوے ایسے مہاجرین کی ایک فہرست جاری کی ہے، جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس جرمن اخبار نے لکھا ہے کہ اس فہرست کے اجراء کا مقصد مہاجرین کی ابتر صورتحال کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ اس صورتحال کی وجہ یورپی ممالک کی سخت پالیساں ہی بنی ہیں۔

نوجوان مہاجر لڑکیوں کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی؟

ليبيا کے راستے يورپ تک رسائی مشکل سے مشکل تر ہوتی ہوئی

مہاجرین کو روکنے کی خاطر مہاجرت مخالف گروپ بھی سمندر میں

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر

حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد غربت، جنگ و جدل، مسلح تنازعات اور شورش سے جان بچا کر یورپ پہنچ چکے ہیں یا اس کوشش میں ہیں۔ کچھ یورپی ممالک نے مہاجرین کے اس سیلاب کو روکنے کی خاطر اپنی قومی سرحدوں پر رکاوٹیں بھی نصب کر دی ہیں۔ اس صورتحال میں ایسے مہاجرین بھی مارے گئے، جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

چار ماہ کے شیر خوار فارس علی کا تعلق شام سے تھا۔ وہ ترکی کے ایک کیمپ میں سردی کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ اسی طرح پانچ سالہ افغان بچی ساجدہ علی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئی۔ کانگو سے تعلق رکھنے والا سیموئل اور اس کی ماں اپنے ملک میں جاری شورش سے جان بچانا چاہتے تھے۔ اس کوشش میں اس خاتون نے ایک خستہ حال کشتی کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی جان بچا سکی اور نہ ہی اپنے چھوٹے سے بچے کی۔

گزشتہ برس جنوری میں انتیس سالہ ہردی غفور اور چھتیس سالہ طلعت عبدالحمید یورپ پہنچ کر بھی اس وقت مارے گئے تھے، جب وہ شدید سردی اور برف باری میں دو دن کا پیدل سفر کر کے ترکی سے بلغاریہ پہنچے تھے۔ یہ دونوں عراقی شہری تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کی مدد سے مرتب کی گئی اس فہرست میں روزنامہ ’ٹاگس اشپیگل‘ نے لکھا ہے کہ کچھ مہاجرین یورپ میں واقع کیمپوں میں آتشزدگی سے ہلاک ہوئے یا پھر سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں بھی۔

اس فہرست میں خود کشی کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ زندگی سے تنگ اور ناامیدی کے شکار کچھ مہاجرین نے خود کو آگ لگا دی جبکہ کچھ نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان دے دی۔ اسی طرح کچھ مایوس مہاجرین نے اونچی عمارتوں سے کود کر خود کشی بھی کی۔ اس فہرست کے مطابق متعدد مہاجرین نسل پرستانہ یا دیگر حملوں کی نذر بھی ہو گئے۔

خطرناک سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بھی ہزاروں مہاجرین لقمہ اجل بنے، جنہیں اس فہرست میں ’نامعلوم افراد‘ قرار دیا گیا ہے۔ سمندر میں سب سے بڑا خونریز واقعہ جولائی سن دو ہزار سولہ میں رونما ہوا تھا، جب ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی دو کشتیوں کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں ساڑھے پانچ سو افراد مارے گئے تھے۔ یہ کشتیاں لیبیا سے یورپ کی طرف سفر پر تھیں۔