’یورپ کو ترکی کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ ترکی کو یورپ کی‘
19 اپریل 2016حالیہ کچھ عرصے میں جہاں ترکی اور یورپی یونین کے مابین تعاون بڑھانے کے لیے معاہدے طے پائے ہیں، وہاں فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر تنقید میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آج ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یورپی پارلیمان کی اس رپورٹ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، جس میں ترک حکومت کے طرز حکمرانی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
حال ہی میں ترکی نے مہاجرین کے حوالے سے یورپی یونین کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا تھا، جس کے تحت ترکی مہاجرین کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں داخل ہونے سے روکے گا اور بدلے میں یورپی یونین انقرہ حکومت کو مالی کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مراعات بھی فراہم کرے گی۔
آج انقرہ میں میونسپل لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ یورپی پارلیمان کی گزشتہ ہفتے جاری کی گئی رپورٹ انتہائی قابل مذمت ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ترکی جمہوریت کے راستے پر پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی یہ رپورٹ ’’اشتعال انگیزی‘‘ ہے۔
ترک صدر نے اس رپورٹ کو اس حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس میں شام کے تقریباﹰ ستائیس لاکھ مہاجرین کو پناہ دینے پر ترکی کی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ ایردوآن کا کہنا تھا، ’’اس ملک میں تیس لاکھ مہاجرین کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے، یہ یورپی یونین کو نظر نہیں آتا۔ کیا اس سے متعلق بھی رپورٹ میں کچھ شامل ہے؟‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’ایک ایسے وقت میں، جب مہاجرین کے معاملے میں ہمارے یورپی یونین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اس وقت ایسی رپورٹ اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘ ایردوآن کا کہنا تھا کہ مغرب کی طرف سے ترکی پر کی جانے والی زیادہ تر تنقید کے پیچھے اچھے ارادے نہیں ہیں۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے انقرہ حکومت پر تنقید کی گئی تھی۔
دوسری جانب ترک وزیراعظم احمد داؤد اولو نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یورپی یونین نے اپنے وعدے پورے نہ کیے تو مہاجرین کے سے متعلق کیا گیا معاہدہ ختم کر دیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بدلے میں یورپی یونین نے یہ شرط بھی قبول کی تھی کہ جون سے ترک باشندوں کو شنگین زون میں ویزے کے بغیر سفر کرنے کی اجازت فراہم کر دی جائے گی۔